محترم ڈاکٹر محمد عبدالسلام صاحب – ایک عہد ساز شخصیت
محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے ایک شاگرد پروفیسر ڈاکٹر غلام مرتضی صاحب (ڈین فیکلٹی آف نیچرل سائنسز قائداعظم یونیورسٹی ، اسلام آباد) اپنے مضمون میں محترم ڈاکٹر صاحب کی شاندار علمی و انتظامی قابلیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سلام صاحب کا تمام خوبیوں کے باوجود نوبل انعام حاصل کرنا آسان کام نہ تھا، دو تین دفعہ قریب پہنچ کر بھی کامیاب نہ ہوئے اور اس میں شاید مغرب کا تعصب تھا اور ڈاکٹر صاحب کو اس کا احساس بھی تھا کیونکہ امریکی سائنسدان حسب عادت دوسرے امریکی سائنسدانوں کا ذکر تو کرتے مگر سلام صاحب کا نام نہ لیتے۔… 1979ء میں جس دن سلام صاحب کے نوبل انعام کا اعلان ہوا، میں ٹریسٹ میں تھا۔ خبر پہنچتے ہی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ریڈیو اور ٹی وی پر سلام صاحب کی باتیں اور چرچے ہونے لگے۔ ٹریسٹ کے شہریوں نے اس طرح خوشی کا اظہار کیا جیسے سلام صاحب ان کے اپنے ہیں، پاکستانیوں کو بڑی عزت ملی اور پاکستان ایک قابل احترم ملک بن گیا۔ پاکستان کو سلام صاحب سے بڑھ کر شاید ہی کوئی سفیر ملے۔ … دو روز بعد سلام صاحب ٹریسٹ تشریف لائے تو سارے سٹاف اور سائنسدانوں نے بلڈنگ کے دروازے پر آپ کا استقبال کیا۔ میں نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور نوبل لاریٹ سے ہاتھ ملایا۔ اسی شام سنٹر میں استقبالیہ دیا گیا۔ میں نے ان سے ملتے ہوئے کہا:
Sir! You have created history, you are the first from the Muslim world to have received this honour.
صدر ایوب سے جب سلام صاحب نے ICTP کو پاکستان میں قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اس وقت کے وزیر خزانہ نے جواب دیا کہ یہ تو ایک انٹرنیشنل ہوٹل کا قیام ہے جہاں سائنسدان آکر اپنی چھٹیاں گزار سکیں۔ افسوس صدہا افسوس کاش اس وزیر کو احساس ہوتا کہ وہ ایک سنگین غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں…۔
نوبل انعام ملنے کے بعد سلام صاحب کو دنیا جہان سے اعزازات سے نوازنے کے لئے مدعو کیا جا رہا تھا۔ حکومت پاکستان نے بھی دعوت دی۔ سلام صاحب نے جواب میں کئی پیغامات بھیجے، ایک پیغام مجھے بھی لانے کا شرف حاصل ہوا کہ ’’مجھے ذاتی طور پر ان کے اعزاز اور میڈل کی کوئی بھوک نہیں، مجھے جس میڈل کی تمنا تھی وہ مجھے مل گیا ہے۔ ہاں البتہ اگر وہ پاکستان میں سائنس کی ترقی کے لئے کوئی سنجیدہ اقدامات کرنے کے لئے تیار ہیں تو میں ضرور آؤں گا۔… سلام صاحب پاکستان آئے اور جنرل ضیاء کو پیشکش کی کہ آپ اپنے نوبل انعام کی پوری رقم (66 ہزار ڈالر) اس بات کیلئے وقف کرنے کو تیار ہیں کہ پاکستانی طلبہ بیرون ملک جاکر اعلیٰ سائنسی تعلیم حاصل کرسکیں بشرطیکہ حکومت بھی دس لاکھ ڈالر مختص کرے۔ جنرل ضیاء نے اصولی اتفاق کیا اور کہا کہ گورنر پنجاب اگلے روز اعلان جاری کردیں گے۔ لیکن اگلے روز کا اعلان بہت مایوس کن تھا کہ تجویز قبول ہے لیکن حکومت کی رقم ڈاکٹر صاحب کی رقم کے مساوی ہوگی۔ سلام صاحب کو سخت مایوسی ہوئی اور آپ نے جنرل ضیاء کو تار بھیجا کہ اگر حکومت صرف ایک فرد کی طرف سے پیش کردہ رقم کے برابر رقم دیتی ہے تو یہ مجھے منظور نہیں، اس صورت میں میں اپنی الگ فاؤنڈیشن قائم کروں گا۔ … حکومت اور بیوروکریٹس کی مہربانیوں سے پاکستان کی کہانی Missed Opportunities کی کہانی ہے۔
1986ء میں یونیسکو کے نئے ڈائریکٹر کے لئے سلام صاحب کا نام تجویز ہوا کیونکہ اس وقت آپ ہی تھے جو پوری دنیا میں مطلوبہ معیار پر پورے اترتے تھے۔ اٹلی ، انگلینڈ اور کئی دوسرے ممالک آپ کو نامزد کرنے کو تیار تھے لیکن آپ کے لئے یہ بات اہم تھی کہ آپ کا اپنا ملک نامزد کرے۔ مگر افسوس حکومت پاکستان نے آپ کی جگہ کسی اور کو نامزد کردیا جو یہ انتخاب بری طرح ہار گیا۔
مجھے فخر ہے کہ میں نے 1962ء میں امپیریل کالج لندن سے پروفیسر عبدالسلام کی سرپرستی میں تربیت حاصل کی اور Ph.D. کی سند پائی۔ آپ کے پڑھانے کا انداز یوں تھا کہ تین چار تحقیقی جریدے ہاتھ میں لئے کلاس میں داخل ہوتے۔ تحقیقی مسائل کا تجزیہ کرتے کرتے بلیک بورڈ بھر جاتا اور خیالات و افکار کے ڈھیر لگ جاتے۔ اکثر طلبہ کے لئے زیادہ تر باتیں سر کے اوپر سے گزر جاتیں لیکن اسکے باوجود سب بے حد وجدانی کیفیت میں بیٹھے نوٹس لے رہے ہوتے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ سلام صاحب کے پاس وقت کم ہے اور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے بے شمار طلبہ رہے مگر صرف گنے چنے لوگوں نے ان کے ساتھ کام کرنے کی جسارت کی۔
سلام صاحب کی بارعب شخصیت، ان کا دبدبہ اور جلالی مزاج، آنکھوں کی چمک، کسی کی مجال کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔ شروع شروع میں گمان ہوا کہ یہ ہم مشرقی لوگوں کا مسئلہ ہے مگر جلد ہی اس راز کی قلعی کھل گئی، گوروں کا بھی برا حال تھا، قصبہ جھنگ کی یہ شخصیت مغرب ہو یا مشرق دونوں پر یکساں طور پر حاوی تھی۔ … ایک بار آپ کے ایک بے تکلف ساتھی نے آپ سے شکوہ کیا کہ ’’تم دوسروں کی سہولت کی خاطر دقیق موضوعات کو آسان بناکر کیوں نہیں پیش کرتے؟‘‘۔ سلام صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’اگر میں تمہارے لئے ایسا کروں تو تم کہوگے ارے یہ تو بہت آسان بات تھی، میں خود بھی سوچ سکتا تھا‘‘۔ دراصل سلام صاحب اپنا وقت بے جا صرف کرکے سر کھپانے کو تیار نہ تھے۔
سلام صاحب کے کیریئر پر ایک سطحی نظر ڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کی ہمہ جہت شخصیت اتنی عظیم تھی کہ گورنمنٹ کالج اور پنجاب یونیورسٹی تو کجا انگلستان کی شہرہ آفاق کیمبرج یونیورسٹی بھی بہت چھوٹی ثابت ہوئی۔ یہاں تک کہ امپیریل کالج لندن جس کو اس بات پر ناز تھا کہ ان کے ہاں نوبل انعام یافتہ ستاروں کا جھرمٹ رہتا ہے ، وہ بھی سلام صاحب کے تخیل کی تسکین نہ کرسکا۔ چنانچہ آپ نے اقوام متحدہ میں سائنس اور تیسری دنیا کے حق میں آواز بلند کی اور اپنی کرشمہ ساز شخصیت اور عالمی شہرت کے بل بوتے پر ICTP کا ادارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر جھنگ کے اس عقابی فرزند کی پرواز یہاں بھی ختم نہیں ہوتی …
۔ …٭ …٭…٭…۔