محترم ڈاکٹر محمد عبدالسلام صاحب کے ایک انٹرویوسے مختصر نکات
محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد اپنے ایک انٹرویو میں بیان فرمایا:
٭ میں دنیا کے بیسیوں سائنسدانوں اور سینکڑوں دانشوروں سے ملا ہوں اور میرا یہ مشاہدہ ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے والا انسان، بہرصورت، خدا کو نہ ماننے والے انسان سے بہتر ہوتا ہے۔
٭ میری زندگی میں تین اہم موڑ آئے۔ پہلے والدین کی خواہش تھی کہ میں ICS بن جاؤں۔ لیکن اچانک جنگ عظیم شروع ہوگئی اور مقابلے کے امتحانات ہی نہ ہوسکے ورنہ اگر میں ان میں شریک ہوتا تو میرے کیریئر کی معراج چیف سیکرٹری کا عہدہ ہوتا۔ دوسرا جب 1942ء میں میں نے ریاضی میں ایم۔اے کیا۔ وظیفہ ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ لیکن 46ء میں وزیر اعلیٰ نے جنگ کیلئے جمع شدہ چندے میں سے کسانوں کیلئے بہبود فنڈ قائم کیا جس میں سے بیرونی ممالک میں تعلیم کیلئے چھ وظائف کا اعلان کیا گیا۔ ایک وظیفہ مجھے ملا اور باقی پانچ تقسیم ہند کے ساتھ ہی ختم ہوگئے۔ قدرت کا انتظام دیکھئے کہ 4؍ستمبر کو کیمبرج میں داخلہ ملا، 5؍ستمبر کو وظیفہ ملا اور دو روز بعد میں نے ملک چھوڑ دیا۔… تیسرا موڑ وہ تھا جب گورنمنٹ کالج میں استاد مقرر ہوا۔ پرنسپل کے حکم پر دو اڑہائی سال طلبہ کو ریسرچ کروانے کی بجائے فٹ بال کھلاتا رہا جس کے بعد پرنسپل نے خفیہ رپورٹ میں لکھا کہ یہ شخص گورنمنٹ کالج کے مزاج کے مطابق نہیں ہے انہیں پنجاب یونیورسٹی بھیج دیا جائے۔ 1953ء میں کیمبرج یونیورسٹی نے مجھے پیشکش کی اور میں نے 3 ماہ یہ سوچنے میں گزاردیئے کہ اپنا وطن چھوڑوں یا نہ چھوڑوں؟ لیکن وطن نہ چھوڑتا تو سائنس کا ’’معیاری‘‘ استاد کبھی بھی تسلیم نہ کیا جاتا۔
٭ پاکستان کی سائنسی پالیسی؟ کیسی پالیسی؟ پاکستان سائنسدان کیلئے قیدخانہ ہے۔ اہل علم کیلئے ملک سے باہر جانے پر پابندیاں کمیونسٹ ممالک کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ ہیں۔ … ایسا تب سے ہوا جب میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوا۔ بھٹو صاحب کیلئے میری جرأت ناقابل برداشت تھی۔ لیکن انکے اصرار کے باوجود میں نے استعفیٰ واپس نہیں لیا اور انہوں نے انتقاماً ٹرائسٹ سنٹر میں پاکستانی طالبعلموں کا داخلہ بند کرنے کے لئے قواعد کو بے حد سخت بنادیا۔
٭ میں نے اسلامی کانفرنس میں اسلامی سائنس فاؤنڈیشن کی تجویز پیش کی تھی جو 1978ء میں منظور ہوئی۔ عرب ممالک (خاص طور پر سعودی عرب) سے ذمہ دار حضرات میرے پاس آتے رہے کہ ہم آپ کو بلانا چاہتے ہیں لیکن بھٹو صاحب کے ناراض ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ … نیویارک سے محمد بن فیصل بن سعود کا پیغام آیا ’’آپ کا اعزاز دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے باعث مسرت ہے‘‘۔ الجزائر اور لیبیا کے وزراء کی طرف سے بھی تار پہنچے۔ اسلامی ثقافت مرکز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بدوی نے بیس ممالک کے سفیروں کے سامنے اپنی تقریر میں کہا ’’ایک پاکستانی کو نوبل انعام ملنے کے بعد عالم اسلام پر بین الاقوامی انعامات کے دروازے کھل گئے ہیں۔ ہمارا یہ احساس کمتری بھی ختم ہوگیا ہے کہ خدا کو ماننے والا کبھی بڑا سائنسدان نہیں ہو سکتا اور نئی نسل کے لئے یہ بات خاص طور پر قابل غور ہے کہ اتنا بڑا انعام ایک ایسے پاکستانی کو ملا ہے جس کے عقیدے اور عمل میں کوئی تضاد نہیں ہے …‘‘
۔ …٭ …٭…٭…۔