محترم ڈاکٹر محمد عبدالسلام صاحب
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ، دسمبر 1997ء، محترم ڈاکٹر محمد عبدالسلام صاحب کے حوالے سے خصوصی اشاعت ہے اور شاندار مضامین، تبصروں اور تصاویر سے مزین ہے۔ چونکہ اس شمارے میں شائع شدہ بعض مضامین اور اقتباسات قبل ازیں ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ میں شائع ہوچکے ہیں اس لئے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں صرف ایسے مضامین کو زیر نظر لایا جارہا ہے جو ہمارے قارئین کے لئے خصوصی دلچسپی کا باعث ہوسکتے ہیں۔
۔ …٭ …٭…٭…۔
محترم ڈاکٹر صاحب کے جد امجد ایک ہندو راجپوت خاندان کے شہزادے تھے جن کی حضرت غوث بہاء الحق زکریاؒ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان کا نام سعد بڈھن رکھا گیا۔ بڈھن کا مطلب ہے لمبی عمر پانے والا۔ سعد نے تخت چھوڑ کر درویشی کی زندگی اختیار کی اورساری عمر خلوص نیت سے دعائیں کرتے ہوئے گزاری۔
۔ …٭ …٭…٭…۔
محترم ڈاکٹر صاحب کے دادا میاں گل محمد صاحب پیشے کے لحاظ سے طبیب تھے اور عالم باعمل انسان تھے۔ اگرچہ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت نہیں کی تھی لیکن آپؑ کے مصدق تھے۔ ان کی اہلیہ بھی بہت نیک، نمازی اور تہجد گزار خاتون تھیں۔
محترم ڈاکٹر صاحب کے تایا چودھری غلام حسین صاحب، جو آپ کے خسر بھی بنے، 21؍جنوری 1874ء کو جھنگ شہر میں پیدا ہوئے۔مڈل میں صوبہ بھر میں اول آئے اور میٹرک میں صوبہ میں دوم۔ مشن کالج لاہور سے بی۔اے کرکے محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کرلی اور 1932ء میں ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے اور قادیان میں سکونت اختیار کرلی۔ تقسیم ملک کے بعد جھنگ میں رہائش اختیار کی … آپ مولوی محمد حسین بٹالوی کے معتقد و مداح تھے چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی بلکہ آپ نے منشی الٰہی بخش اکونٹنٹ اور ایک دوسرے ساتھی کے اکسانے پر ’’عصائے موسیٰ‘‘ کے نام سے کتاب بھی لکھی جس کا ذکر حضورؑ نے اپنی کتاب ’’اعجاز احمدی‘‘ میں بہت تکلیف سے فرمایا۔ کچھ عرصہ بعد الٰہی بخش اور اس کا دوسرا ساتھی طاعون سے ہلاک ہوگئے اور چودھری صاحب کو شدید ہیضہ ہوگیاجس کے بعد آپ کا دل احمدیت کی طرف مائل ہوا اور آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے دعائیں شروع کیں اور خواب کے ذریعے شرح صدر حاصل کرکے قبول احمدیت کی سعادت پالی لیکن ساری عمر اس بات کا افسوس کرتے رہے کہ یہ سعادت حضورؑ کی زندگی میں کیوں حاصل نہ ہوئی۔ تاہم اپنی باقی زندگی انہوں نے ایک پُرجوش داعی الی اللہ کے طور پر گزاری۔ آپ خلافت کے عاشق، صاحب فراست، بااخلاق اور صاحب کشف بزرگ تھے۔ موصی تھے، 24؍جنوری 1950ء کو وفات پائی اور جھنگ میں اپنے آبائی قبرستان میں امانتاً دفن ہوئے۔
۔ …٭ …٭…٭…۔
محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے نانا حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ آف فیض اللہ چک تھے۔ قریباً 1867ء میں پیدا ہوئے اوران چند خوش قسمت افراد میں سے تھے جنہیں حضورؑ کے دعویٰ سے قبل بھی بار بار فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔ 10؍مارچ 1890ء کوبیعت کی سعادت پائی۔ 23؍مارچ 1942ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ آپؓ کے ایک بیٹے حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحبؓ کو ربع صدی تک غانا میں تبلیغی خدمات کی توفیق عطا ہوئی۔ ایک دوسرے بیٹے مکرم ملک حبیب الرحمان صاحب بطور ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز ریٹائرڈ ہونے کے بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے مینیجر اور ہیڈماسٹر بھی رہے۔
۔ …٭ …٭…٭…۔
محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے والد بزرگوار حضرت چودھری محمد حسین صاحب 2؍ستمبر 1891ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم جھنگ میں حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ اسی دوران پیر بخش نامی ایک شخص نے آپ کو ’’تائید اسلام‘‘ نامی ایک انجمن کا رکن بننے کی پیشکش کی۔ اس انجمن کا مقصد محض احمدیت کی مخالفت کرنا تھا۔ آپ نے اس سے دریافت کیا کہ اگر وہ (یعنی حضرت مسیح موعودؑ) سچے ہوئے تو ہم کدھر جائیں گے؟ پیربخش نے کہا کہ یہ ہو نہیں سکتا۔ لیکن آپ نے جواب دیا کہ پہلے آپ دعا کریں گے اور پھر کوئی فیصلہ کریں گے۔ چنانچہ آپ نے اھدنا الصراط المستقیم کا ورد شروع کردیا اور چالیس روز بعد ایک رات خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا جن کے بارے میں آپ کو بتایا گیا کہ یہ قادیان والے ہیں۔ پھر آپ موقعہ پاکر قادیان گئے جہاں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی اور پھر واپس لاہور آکر ثابت قدمی کے ساتھ ہر قسم کی مخالفت برداشت کرتے رہے اورایمان میں ترقی کرتے چلے گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو آپکے زمانہ قیام لاہور کے دوران احمدیہ ہوسٹل لاہور کا سپرنٹنڈنٹ مقرر فرمایا۔ تعلیم مکمل کرکے آپ واپس جھنگ تشریف لے گئے۔ جہاں 1920ء میں آپ کی شادی ہوئی اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ جلد ہی آپ کی اہلیہ وفات پاگئیں۔ 25ء میں آپ کی دوسری شادی محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ سے ہوئی جن سے سات بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی جن میں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سب سے بڑے تھے۔
حضرت چودھری محمد حسین صاحب کچھ عرصہ گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ میں انگریزی کے مدرس رہے اور پھر انسپکٹر آف سکولز کے دفتر میں ملازمت اختیار کرلی۔ 1951ء میں انسپکٹر آف سکولز ملتان ڈویژن کے دفتر سے بطور ڈویژنل ہیڈکلرک ریٹائرڈ ہوئے۔ قیام ملتان کے دوران آپ صدر اور امیر جماعت ضلع ملتان بھی رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جھنگ میں سکونت پذیر ہوئے۔ اپریل 1959ء میں لندن تشریف لے گئے اور یہاں احمدی نوجوانوں کی تربیت کی ذمہ داری سنبھال لی۔ واپس آئے تو 7؍اپریل 1969ء کو کراچی میں وفات ہوئی۔ جنازہ ربوہ لایا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنازہ کو کندھا دیا۔ بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔
محترم ڈاکٹر صاحب کی والدہ محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ 1902ء میں پیدا ہوئیں۔ چونکہ انکے والد حافظ قرآن تھے اس لئے آپ کو بھی قرآن مجید کااکثر حصہ زبانی یاد ہوگیا تھا۔ کسی آیت کے حوالہ کی ضرورت پڑتی تو سورۃ کا نام اور رکوع بتادیا کرتیں۔ جھنگ اور ملتان میں اپنے قیام کے دوران بے شمار بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کی توفیق پائی۔ 7؍اکتوبر 1977ء کو لندن میں وفات پائی۔ پانچویں حصہ کی موصیہ تھیں۔ جنازہ ربوہ لایا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔
محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے اپنے والدین کے اس احسان کو ہمیشہ یاد رکھا کہ ان کے ذریعے سے ہی احمدیت کی روشنی آپ تک پہنچی چنانچہ آپ کے بھائی مکرم عبدالرشید صاحب کا بیان ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میں تو اپنے والدین کو اپنی ہر نماز میں یاد رکھتا ہوں اور ان کے اس احسان کو کبھی بھول نہیں سکتا۔
۔ …٭ …٭…٭…۔