محترم ڈاکٹر نثار احمد صاحب مورانی
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23 جولائی 2009ء میں مکرم وقار احمد طاہر مورانی صاحب کے قلم سے اُن کے والد محترم ڈاکٹر نثار احمد صاحب مورانی واقف زندگی کا تفصیلی ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
محترم ڈاکٹر نثار احمد صاحب وقف جدید کے اولین پھل تھے جو ہندوؤں سے احمدی ہوئے اور اپنی وفاداری اور اخلاص سے جماعت کا نام روشن کرنے والوںمیں شامل ہوئے۔ آپ تھرپارکرکے ایک گائوں سیڈیہ ضلع مٹھی میں 1940ء میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام نانک رام رکھا گیا۔ آپ کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ آپ کی ولادت کے دن آپ کے گاؤں میں پہلی دفعہ اذان لاؤڈ اسپیکر پہ دی گئی جو کہ آپ کے کانوں میں پڑنے والی ابتدائی آواز تھی۔ آپ بچپن میں بچوں کے ساتھ کھیلتے تو، اللہ اللہ، کہتے تھے۔ سکول میں اپنی ذہانت سے اساتذہ کا قرب حاصل کیا۔ آپ تیسری جماعت میں تھے تو بچوں کے ساتھ بکریاں چرانے گئے اور ایک درخت پہ چڑھ کر اذان دینے لگے۔ اچانک گر گئے اور بائیں بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی جو کہ گاؤں کے ٹوٹکوں کی وجہ سے خراب ہو گئی اورپھر علاج کے لئے حیدرآباد لے جایا گیا جہاں آپ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ وہاں بھی جب آپ اذان سنتے تو آپ کو سکون ملتا۔ علاج کے بعد آپ گھر واپس پہنچے تو اپنی والدہ محترمہ سے کہا کہ اذان کی آواز تسلی دیتی ہے۔ اس پر آپ کو گاؤں کے بھگت کے پاس دینی تعلیم کے لئے بھیجنا شروع کیا گیا جہاں آپ بہت شوق سے پڑھنے لگے اور گاؤں والے آپ کی ذہانت کی وجہ سے آپ کو بھگت کہنے لگے۔
میٹرک کے بعد آپ مزید تعلیم کے لئے اپنے چچا زاد بھائی کے پاس حیدرآباد گئے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلام کے بارہ میں کافی معلومات حاصل کرتے رہے۔ ایک دن آپ نے خواب میں آسمان پہ تیز گرج چمک میں روشنی کے ساتھ کلمہ لکھا ہوا دیکھا جو آپ کی زبان پر بھی جاری ہو گیا۔ آپ خوف سے اٹھ بیٹھے اور پھر توبہ کرتے ہوئے اپنی مذہبی تعلیم کے تحت پھر سونے لگے تو کلمہ پھر آپ کی زبان پر جاری ہو گیا۔ ساری رات بے چینی میں گزاری اور صبح بھی اُس خواب کا اتنا اثر تھا کہ آپ اُس اثر کو زائل کرنے کے لئے فلم دیکھنے کی نیت سے سینما چلے گئے لیکن وہاں بھی وہی منظر آپ کے سامنے آتے رہے۔ پھر جب آپ واپس ہوسٹل آرہے تھے تو راستہ میں ایک بچہ کے ہاتھ پھیلانے پر آپ نے اُس کو خیرات دی اور اُس نے آپ کو سورۃالفاتحہ اور آیۃ الکرسی کے پمفلٹ دیئے۔ جب بھی آپ انہیں پڑھتے تو سکون محسوس کرتے۔
اس واقعہ کا ذکر جب آپ نے اپنے چچیرے بھائی سے کیا تو اُس نے آپ کو مکرم مہاشہ محمد عمر صاحب سے ملوادیا۔ جلد ہی آپ کو احمدیت کی تعلیم پر تسلّی ہوگئی کہ یہی سچائی ہے۔ اسی دوران آپ نے خواب میں وہی پہلے والا منظر اور روشنی کے ساتھ کلمہ لکھا ہوا دیکھا۔ اور یہ بھی دیکھا کہ ایک طرف اندھیرے میں حضرت کرشنؑ کھڑے ہیں اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر دوسری طرف روشنی میں کھڑے حضرت مسیح موعودؑ کو آپ کا ہاتھ تھماتے ہیں اور بہت خوش ہو کر چلے جاتے ہیں۔ یہ خواب دیکھ کر آپ کو تسلی ہوئی کہ آپ جس جماعت میں شامل ہو رہے ہیں وہ واقعی وہی جماعت ہے جس کے بارہ میں اتھروید (ہندوؤں کی الہامی کتاب) میں یہ پیشگوئی ہے کہ بیاس ندی کے کنارے پہ امام مہدی کا ظہور ہو گا اور اس کی کئی منڈیاں (چہرے) ہوں گی اور وہ صرف پاک روحوں کو اپنے پاس بلائے گا۔
1961ء میں نانک رام صاحب نے بیعت کی اور نثار احمد بن گئے۔ جب آپ نے گاؤں جاکر سارا واقعہ اپنی والدہ محترمہ کو بتایا تو وہ بہت خوش ہوئیں لیکن آپ کو منع کیا کہ اپنے بھائیوں کو اس بارہ میں نہ بتائیں مبادا وہ آپ کو نقصان پہنچائیں۔ جب آپ واپس حیدر آباد آگئے تو آپ کے بھائیوں کو آپ کے اسلام قبول کرنے کا علم ہوا اور اُن کے پیغام آئے کہ اگر اب گاؤں آئے تو ہم تمہیں مار دیں گے۔ پھر آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کے ایک بھائی مکرم پریم چند صاحب کو تسلی کا پیغام دے کر آپ کے پاس بھیجا جو دل سے آپ کے مسلمان ہونے پر خوش تھے۔
نانک رام مسلمان ہوکر نثار احمد بن گئے اور 1964ء میں جلسہ سالانہ پر مکرم مہاشہ محمد عمر صاحب کے ساتھ ربوہ آئے۔ جلسہ کے بعد جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ملاقات ہوئی تو مکرم مہاشہ صاحب نے آپ کا تعارف حضورؓ سے کروایا۔ حضورؓ علالت کی وجہ سے چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ حضور کو تمام واقعہ کا تو علم تھا مگر ملاقات پہلی دفعہ ہوئی تھی چنانچہ حضورؓ شفقت فرماتے ہوئے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور پوچھا کہ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟ آپ نے کہا کہ حضور! ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ ہمارے خاندان میں اپنے نام کے ساتھ دادا کا نام لگانے کا رواج ہے تاکہ نسل کا پتہ لگے۔ فرمایا: آپ اپنے نام کے ساتھ مورانی لکھیں۔ تب سے آپ کے تمام خاندان اور اُن کی نسلوں کی پہچان مورانی کے نام سے ہوتی آرہی ہے۔
1964ء میں ہی آپ نے اپنی زندگی وقف جدید کے تحت وقف کی اور چند ماہ کی جماعتی تعلیم کے بعد لاہور کے ایک کالج سے ہومیوپیتھ کا ڈپلومہ بذریعہ ڈاک کرلیا۔ پھر اپنے آبائی گاؤں تھرپارکر میں تبلیغ کے لئے بھجوائے گئے اور پھول پورہ میں پہلا مرکز تبلیغ قائم کیا۔ اس کے بعد مٹھی میں مرکز تبلیغ اور ڈسپنسری قائم کی اور بعد ازاں آپ کو مزید کئی مساجد اور مراکزِ تبلیغ قائم کرنے کی توفیق ملی۔
حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے بحیثیت ناظم وقف جدید جب تھر کا دورہ کیا تو آپ کے بھائی پریم چند سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ حضورؒ کو لے کر مکرم پریم چند صاحب جو نوکوٹ کے قریب ایک گائوں میں رہتے تھے، اُن کے گھر آئے۔ انہوں نے نہایت ادب و احترام سے حضورؓ کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا اور اجازت لے کر کھانا تیار کروایا۔ جب کھانا آیا تو حسب معمول پریم چند صاحب کے لئے بہت سی سبز مرچیں بھی لائی گئیں۔ حضورؓ نے فرمایا کہ اتنی مرچیں صحت کے لئے ٹھیک نہیں۔ یہ سن کر پریم چند صاحب نے مرچیں کھانی چھوڑ دیں اور پھر تمام عمر نہ کھائیں۔
محترم نثار مورانی صاحب کو بیعت کے بعد ہر سال جلسہ سالانہ ربوہ میں شرکت کی توفیق ملتی رہی۔ 1974ء میں جلسہ کے لئے آئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ سے ان کی شادی کے بارہ میں فرمایا۔ چنانچہ جلد ہی حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کی تجویز پر محترم نثار صاحب کی شادی مکرم شیخ نعمت اللہ صاحب کی بیٹی سے ہوگئی۔
شادی کے چند ماہ بعد ’’دعوۃ الامیر‘‘ کا سندھی ترجمہ شائع کرانے کے کیس میں مکرم نثار صاحب اسیر ہوگئے تو آپ کی اہلیہ کو اُن کے بھائی نے کہا کہ آپ اکیلی پریشان ہوں گی، نثار صاحب کی رہائی تک آپ ربوہ آجائیں۔ لیکن وہ کہنے لگیں کہ مورانی صاحب جیل میں رہیں اور میں اپنے آرام کا سوچ کر ربوہ چلی جائوں، ایسا نہیں ہوسکتا۔
اس کیس کی شخصی ضمانت کے لئے پولیس نے تنگ کرنے کے لئے کہا کہ اسیر کے سگے بھائی یا والد کی ضمانت چاہئے۔ وہ سمجھتے تھے کہ کوئی نہیں آئے گا۔ لیکن جب مکرم پریم چند صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے خود آکر ضمانت کروادی۔
ایک دفعہ نو کوٹ کی بعض احمدی خواتین نے کم علمی کی وجہ سے آپ کی اہلیہ سے کہا کہ آپ کے گھرہندو آتے جاتے اور کھاتے پیتے ہیں اس لئے ہم آپ کے گھر کچھ کھائیں پئیں گے نہیں۔ یہ سن کر آپ کی اہلیہ پریشان ہو گئیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں لکھا کہ حضور! آپ نے میری شادی کروائی تھی کہ میں دوسروں کو جماعت کی طرف راغب کروں یہاں تو جماعت والی دُور ہو رہی ہیں؟ اس پر حضورؒ نے جواب لکھا کہ اگر اس بات پر احمدی خواتین آپ سے ناراض ہوتی ہیں تو ہوں مگر آپ نے اپنے سسرال والوں سے ناطہ نہیں توڑنا۔ جب یہ خط ان احمدی خواتین کو دکھایا گیا تو وہ بہت شرمندہ ہوئیں اور خود ہی ان کے گھر آنا جانا شروع کردیا۔
محترم نثار مورانی صاحب کی نوکوٹ شہر میں کافی مخالفت تھی۔ ایک دفعہ ایک نقاب پوش لڑکا آپ کو قتل کرنے کے ارادہ سے رات کو عشاء کی نماز کے بعد اسلحہ لے کر گھر میں کود آیا۔ بچے جاگ رہے تھے وہ خوفزدہ ہوکر شور مچانے لگے تو حملہ آور دیوار پھلانگ کر بھاگ گیا۔ بعد میں اُس لڑکے کا پتہ چل گیا لیکن نثار صاحب نے کوئی بدلہ نہیں لیا۔ پھر وہ سرعام آپ کو قتل کرنے کی دھمکیاں دینے لگا۔حالات خراب ہونے پر خدام کی ڈیوٹیاں بھی شروع ہوگئیں۔ اُسی لڑکے نے ایک بار پھر آپ پر قاتلانہ حملہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اس کے چند روز بعد اُس کے سر پر چوٹ لگی اور اُس کی ذہنی حالت بگڑ گئی۔ کوئی علاج کارگر نہ ہوا تو اُس لڑکے کی والدہ محترم نثار صاحب کے پاس آئیں۔ آپ اُس کے گھر گئے اور ایک دوائی بناکر اُسے سنگھائی۔ کچھ ہی دیر میں اُس کی حالت سنبھل گئی اور وہ بالکل ٹھیک بولنے لگا اور اس کے بعد کبھی کوئی دماغی تکلیف نہ ہوئی اور نہ پھر کوئی غلط کام کرنے کی اس کو ہمت ہوئی۔
محترم نثار صاحب کو 1985ء میں بھی کلمہ کا بیج لگانے پر اسیرراہ مولیٰ بننے کی توفیق ملی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 1985ء کے خطبہ عیدالفطر میں فرمایا: ’’جو اوّلین پھل ملے ہیں وقف جدید کو ان میں ایک یہ ہیں نثار احمد مورانی جو نوکوٹ میں رہائش پذیر ہیں… یہ نومسلم ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی برکت سے شرک سے اجتناب کی توفیق ملی۔ جو بتوں کی پرستش کیا کرتا تھا اسے جماعت احمدیہ کے سرفروشوں نے کلمہ توحید پڑھا دیا… یہ وہ احمدی واقف زندگی بھی تھے اور اب بھی واقف زندگی ہیں۔ یہ وہ ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ان کو ہندوؤں سے احمدی مسلمان ہونے کی توفیق ملی اور ان کا ایک ہاتھ تو بچپن میں کٹ گیا تھا اور ایک ہی ہاتھ تھا وہ بھی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔‘‘
محترم نثار صاحب نے حکمت تو معلم کلاس کے دوران ہی پڑھنی شروع کی تھی اور تاحیات پڑھتے رہے اور ہومیوپیتھی کا کورس بھی کیا تھا۔ آپ نے اپنی پریکٹس تھر میں جاری رکھی جہاں کی ایک نہایت مہلک بیماری جس میں ایک لمبا کیڑا جسم کے اندر پیدا ہوتا ہے اور جب وہ جسم سے نکلنا شروع ہوتا تھا تو کئی ہفتے میں پورا نکلتا تھا اگر وہ ٹوٹ جاتا تو اس کا زہر جسم میں پھیل جاتا اور مریض موت کے منہ میں چلا جاتا۔ محترم نثار صاحب نے اس کا ہو میو پیتھی سے علاج کیا جس کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی کتاب میں بھی کیا۔ اس کے علاوہ سانپ کے کاٹے کی دوائی بھی ہومیو پیتھی میں آپ نے دریافت کی اور اس کا ذکر بھی حضورؒ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔
مکرم نثار مورانی صاحب نے اپنے حالات زندگی سے متعلق ایک کتاب ’نشکلنک اوتار، یعنی معصوم خلیفۃ اللہ لکھی ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے کئی پمفلٹ لکھے اور بعض کتب کا سندھی ترجمہ کیا جن میں دعوۃ الامیر، کشتی نوح، اسلامی اصول کی فلاسفی وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کی تبلیغ سے سینکڑوں افراد نے اسلام قبول کیا۔ مطالعہ سے آپ کو عشق تھا۔ ایک ہزار سے زائد جماعتی کتب گھر میں موجود تھیں جن سے اب مقامی جماعت فائدہ اٹھارہی ہے۔ آپ سالہاسال صدر جماعت، امام الصلوٰۃ اور دیگر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ آخری وقت میں ایک کتاب ’’ہومیوپیتھی کے کرشمے‘‘ لکھ رہے تھے جب دل کے عارضہ کے سبب مختصر بیماری سے وفات پائی۔ 2مئی 1998ء کو آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔