محترم گیانی عبداللطیف صاحب درویش
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں مکرم طاہر احمد حفیظ صاحب (مبلغ سلسلہ) نے اپنے دادا محترم گیانی عبد اللطیف صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔ قبل ازیں آپ کا تذکرہ 27 ستمبر 2013ء کے اخبار کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔
محترم گیانی عبداللطیف صاحب کے والد محترم مولوی عبد الرحمن صاحب اور دادا حضرت مولوی محمد حسین صاحب کپورتھلوی ؓتھے جن کا شمار جیّد علماء میں ہوتا تھا اور حضرت مسیح موعودؑ نے ’’انجام آتھم‘‘ میں مندرج فہرست میں اُنہیں 313 صحابہ میں شامل فرمایا ہے۔ وہ بہت نیک طبیعت اور سادہ لوح شخص تھے۔ وہ زمین و جائیداد کے مالک تھے اور علاقہ بھر میں خوب رُعب داب تھا۔ لیکن تقسیمِ ہند کے وقت یہ عروج زوال میں بدل گیا اور اُن کے بیٹوں کو قادیان ہجرت کرنی پڑی۔
محترم گیانی عبد اللطیف صاحب 1927ء میں مکرمہ فاطمہ بی بی صاحبہ کے بطن سے پیدا ہوئے ۔آپ کا آبائی گاؤں آلوپور (کپورتھلہ) تھا۔ آپ کا بچپن بہت آسودگی میں گزرا۔ آپ نے گورمکھی کا امتحان گیانی پاس کیا تھا اس لئے گیانی کے نام سے مشہور تھے۔ پہلے فوج میں بطور نرسنگ سپاہی ملازم ہوئے اور پانچ سال کی ملازمت کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر فوج سے ریلیز ہوکر قادیان آئے اور دیہاتی مبلغین کی کلاس میں داخل ہوگئے۔ بعدازاں 313 درویشوں میں شامل ہوئے۔
ہجرت کے وقت ایک قافلہ قادیان سے روانہ ہونے کے لئے تیار تھا کہ آپ کو ایک انگریز افسر نے کہا کہ تم بھی ٹرک میں بیٹھ جاؤ، بچ جاؤگے ورنہ یہاں مارے جاؤگے۔ آپ نے اطمینان سے جواب دیا کہ ہم یہاں مرنے کے لئے ہی تو رُکے ہوئے ہیں ، ہمیں موت سے ڈر نہیں لگتا۔
محترم گیانی عبداللطیف صاحب دیہاتی کلاس میں بھی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ 1948ء میں آپ کا تقرر بیجوپورہ ضلع سہارن پور میں ہوا۔ تبلیغی میدان کے علاوہ بھی آپ کو بہت نمایاں خدمت کی توفیق ملی۔ مکرم گیانی عباداللہ صاحب کے گورمکھی ترجمہ قرآن کی پروف ریڈنگ اور اشاعت کا کام آپ کی نگرانی میں ہی مکمل ہوا۔ منتخب آیات، منتخب احایث اورمنتخب تحریرات حضرت مسیح موعودؑکے گورمکھی تراجم بھی آپ نے کئے۔ گورمکھی لٹریچر کی طباعت و تیاری کے سلسلہ میں قابل قدر خدمت بجالاتے رہے۔ نیز دفتر زائرین، دفتر امور عامہ ،نظارت بیت المال ، نظارت تعلیم ،دفتر امیر مقامی میں بھی خدمت کا موقع ملا۔ کچھ عرصہ منیجر ہفت روزہ بدر بھی رہے۔
1955ء میں محترم گیانی عبداللطیف صاحب کی شادی مکرمہ ثمینہ بیگم صاحبہ آف بھدرواہ سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو 5 بیٹے اور 3 بیٹیاں عطا فرمائیں ۔ ایک بیٹے عبد الہادی صاحب نورہسپتال کی لیب میں کام کر رہے ہیں ۔ ایک بیٹی شمیم اختر صاحبہ (ٹیچر نصرت گرلز اسکول) صدر لجنہ بھارت رہی ہیں ۔ ایک داماد مکرم صباح الدین صاحب نائب ناظر بیت المال ہیں ۔
آپ جس مکان میں رہتے تھے وہ محلہ احمدیہ کا آخری گھر تھا۔ آگے غیر مسلم آبادی تھی۔ 1965ء میں جب حالات دوبارہ خراب ہوئے تو اُس مکان میں مقیم درویش کسی دوسرے مکان میں منتقل ہو گئے۔ یہ مکان کچھ عرصہ تک بالکل خالی رہا اور کوئی یہاں آنے کو راضی نہ ہو رہا تھا۔ اس پر دفتر کی طرف سے محترم گیانی صاحب کو ساری صورت حال بتاکر دریافت کیا گیا۔ آپ بہت دلیر اور بلند حوصلہ کے مالک تھے چنانچہ اطاعت کرتے ہوئے وہاں منتقل ہوگئے اور ساری زندگی وہیں قیام کیا۔
دورِ درویشی کے آغاز میں شدید مالی تنگی درپیش تھی۔ محترم گیانی صاحب کے پاس کپڑوں کا صرف ایک ہی جوڑا تھا۔ ایک رات آپ کی بیگم صاحبہ نے اُسے دھو کر سوکھنے کے لئے ڈالا تو صبح تک وہ گیلا تھا۔ اس پر آپ دھوتی پہن کر دفتر چلے گئے۔ حضرت مولوی عبد الرحمٰن صاحبؓ جٹ (ناظر اعلیٰ و امیر مقامی) نے دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت یہ دھوتی ہے۔ مولوی صاحب فرمانے لگے کہ وہ تو مجھے بھی نظر آرہا ہے کہ یہ دھوتی ہے مگر یہ بتاؤ کہ کیا یہ دفتر کا لباس ہے؟ اس پر محترم گیانی صاحب نے جواب دیا کہ حضرت! کپڑے کا صرف ایک ہی جوڑا ہے جو بیوی نے رات کو دھو کر ڈال دیا تھا ابھی تک نہیں سوکھا ۔اس لئے مجھے مجبوراً آج یہ دھوتی پہن کر دفتر آنا پڑا۔ آپ کی یہ بات سُن کر حضرت مولوی صاحب کے چہرہ پر جو ناراضگی تھی وہ شفقت ومحبت میں بدل گئی۔
محترم گیانی عبد اللطیف صاحب نے بھی بہشتی مقبرہ میں چند قطعات کی صفائی کی ذمہ داری لی ہوئی تھی اور اس ذمہ داری کو ضعیف العمری کے باوجود بخوبی نبھاتے تھے۔
درویشی دور میں درویش احباب قافلہ کی صورت میں جلسہ سالانہ ربوہ میں شمولیت کے لئے جایا کرتے تھے لیکن محترم گیانی صاحب ایسے درویش تھے جو سب سے آخر میں گئے۔ دراصل آپ کی مالی حالت اچھی نہیں تھی۔ تاہم جب آپ کو جانے کا حکم ملا تو آپ کی اہلیہ نے اپنے ٹرنک میں محفوظ کچھ کپڑے نکال کر آپ کا ایک جوڑا سی دیا اور روانہ ہونے سے قبل آپ کو دے دیا۔ آپ نے یہ سوچا کہ کپڑے ربوہ کے نزدیک پہن لوں گا۔ لیکن جب ربوہ کے قریب وہ کپڑے پہنے تو عجیب ڈھنگ کے تھے۔ خیر آپ نے یہ سوچ کر پہن لئے کہ بیوی نے ہمدردی تو کی لیکن یہ بات اَورہے کہ وہ درزن نہیں ۔ ربوہ ریلوے سٹیشن پر آپ کے بھانجے آپ کو اپنے ہمراہ لے جانے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ جب آپ اُن کے گھر پہنچے اور آپ کی ملاقات اپنی بہن سے ہوئی تو اُس نے آپ کی حالت دیکھ کر کہا کہ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے۔ اس پر آپ نے کہا کہ درویشی زمانہ میں ابتلاؤں سے جنگ کر رہا ہوں ۔ بہرحال آپ کی بہن نے راتوں رات دو جوڑے کپڑے سیے جن کو پہن کر آپ جلسہ گاہ میں گئے۔ لیکن پھر بھی آپ کی حالت دیکھ کر آپ کی بہن کو اطمینان نہ آرہا تھا اور اُس نے آپ کو اپنے پاس رہنے کے لئے کہا۔ آپ نے جواب دیا کہ میں نے درویشی کی خاطر سب کچھ قربان کیا۔ اب کیا پاکستان رہنے کے لئے درویشی بھی قربان کردوں ؟ بس تم میرے لئے دعا کیا کرو۔
محترم گیانی صاحب نے اپنی تمام دنیاوی خواہشات کو تج کرکے درویشی اختیار کی تھی اسی لئے کبھی کپورتھلہ جاکر اپنے گاؤں کو دیکھنے کا شوق بھی نہیں اُبھرا جہاں آپ کا بچپن نہایت آسودگی میں گزرا تھا اور نہ ہی اُس جائیداد کو دوبارہ حاصل کرنے کی آپ نے کوئی کوشش کی۔ اپنے بچوں کے بہت اصرار پر آپ 52 سال بعد 1999ء میں ایک بار اپنے گاؤں گئے اور پرانی یادیں تازہ کیں ۔ لیکن ساری زندگی آپ نے اپنے عمل سے یہی ثابت کیا کہ آپ کے لئے سب سے بڑی جائیداد درویشی کی جائیداد ہے ۔
محترم گیانی صاحب کو خلیفہ وقت سے بہت محبت تھی۔ 1991ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ قادیان تشریف لائے تو آپ کا ایک بیٹا معذوری کی وجہ سے باہر جاکر حضورؒ کے دیدار سے بھی محروم تھا۔ اُس کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے محترم گیانی صاحب کی بیٹی نے حضورؒ کی خدمت میں آپ کے گھر تشریف لانے کی درخواست کردی اور بڑی خوشی خوشی گھر پہنچ کر آپ کو اس بارہ میں بتایا۔ آپ اپنی بیٹی کی بات سُن کر خاموش ہو گئے اور کچھ دیر بعد کہا: ’’مَیں خوش نہیں ہوں ۔ مجھے خلیفۂ وقت کا ہمارے گھر آنا زیادہ محبوب نہیں ہے۔ مجھے اُن کی صحت محبوب اور مقدّم ہے ‘‘۔ دراصل آپ کے گھر کے سامنے سے ایک گندہ نالہ بھی بہتا ہے جس کی بدبو سے پریشانی بھی ہوتی ہے۔ خلیفہ وقت کو اتنی گندی گلی میں لانا ایک درویش کو کیسے گوارہ ہو سکتا تھا۔ وہ تو ہر وقت اپنی جانیں خلیفہ وقت پر نچھاور کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ لیکن خلیفہ وقت بھی شفقت سے بھرا ایک دریا ہوتا ہے اور یہی ہوا۔ حضورؒ آپ کے گھر تشریف
لائے اور آپ کے معذور بیٹے کے ساتھ تصویر بھی بنوائی۔
محترم گیانی عبداللطیف صاحب درویش کو قادیان سے باہر جانا گوارا نہ تھا۔ یہ بھی خواہش تھی کہ آپ کی لڑکیوں کی شادی بھی قادیان میں ہی ہو ۔ خدا تعالیٰ نے یہ خواہش بھی پوری فرمادی۔ آپ کی اہلیہ صاحبہ 2007ء میں وفات پا گئی تھیں جبکہ آپ کی وفات 20 نومبر 2009 ء کو ہوئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔