محترم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے جریدہ ’’خدیجہ‘‘ (نمبر 1 برائے سال 2011ء) کے حوالہ سے محترم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کا ذکرخیر گزشتہ شمارہ سے جاری ہے آپ کی اہلیہ مکرمہ صادقہ ہیوبش صاحبہ لکھتی ہیں کہ میرا تعلق قادیان سے ہے اور والد محترم چودھری سعید احمد مہار صاحب درویشان میں شامل تھے۔ محترم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کی اہلیہ اوّل محترمہ ہدایت بیگم سوقیہ صاحبہ کی وفات ہوگئی تو آپ کی ایک چھوٹی بیٹی بھی تھی۔ اس وقت بعض رشتے سامنے آئے۔ اُن دنوں آپ نے خواب میں میرے والد صاحب کو دیکھا جو آپ کو ایک انگوٹھی دے رہے تھے۔ چنانچہ آپ نے اگلے روز ہی خط لکھا اور اس طرح مَیں آپ کی بیوی بن کر جرمنی آگئی۔ اُس وقت مجھے اس فرق کا احساس تھا کہ ہماری نہ صرف زبان اور ثقافت مختلف تھی بلکہ آپ بہت عالم تھے۔ اُس وقت بہت دعا کیا کرتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے خوابوں کے ذریعہ تسلّی دی۔ ایک بار اسی پریشانی کا اظہار حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ سے کیا تو انہوں نے اسی وقت دعا کروائی جس کے نتیجہ میں میرے اندر ایک سکون پیدا ہوگیا۔ بعد میں اگر مَیں نے کبھی ہدایت اللہ صاحب سے اپنی کم مائیگی کا اظہار کیا تو آپ تسلّی دیتے ہوئے فرمایا کرتے کہ ہمارا رشتہ آسمان پر طے ہوا ہے اور ہم نے ہر صورت اکٹھے رہنا ہے۔
آپ بہت دماغی محنت کا کام کرتے تھے اور جماعتی مصروفیات بھی ہوتی تھیں ۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے کمزوری بھی ہوجاتی۔ لیکن جب بھی وقت ملتا تو گھر میں بھرپور وقت گزارتے۔ بچوں کو باہر لے جاتے اور آئس کریم وغیرہ کھلاتے۔ عموماً بچوں کے ساتھ سختی نہیں کرتے تھے لیکن اگر تربیت میں ضرورت ہوتی تو ناراضگی کا اظہار کردیتے۔
میرا اتنا خیال رکھتے کہ بچے کی پیدائش سے پہلے اکثر مجھ سے پوچھ پوچھ کر کھانا خود تیار کردیتے۔ ویسے کھانے پر کبھی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔ پسند آتا تو تعریف کرتے ورنہ خاموشی سے کھالیتے۔ سنّت رسولؐ کے مطابق عمل کرنے کی ہمیشہ خواہش اور کوشش ہوتی۔ اللہ تعالیٰ پر بھرپور توکّل تھا۔ ایک بچے کی پیدائش کے وقت خطرناک صورتحال پیدا ہوگئی اور فوری آپریشن کرنا پڑا۔ آپ اس دوران سورۃ یٰسین پڑھتے رہے۔ اسی دوران کشفی حالت میں دیوار پر لفظ alive لکھا ہوا دیکھا تو تسلّی ہوئی۔
تبلیغ کرنے کا جنون تھا۔اس مقصد کے لئے ہر قسم کی تکلیف اٹھاتے۔ کئی بار طبیعت بہت خراب ہوتی کہ کسی جگہ سے فون آجاتا تو فوراً تیار ہوجاتے۔ مَیں اگر صحت کی خرابی کی طرف توجہ دلاتی تو کہتے کہ مَیں تو وقف ہوں ، مجھے تو جانا ہی ہے۔ خود بھی نماز باجماعت کے عادی تھے اور بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتے۔ نوافل بھی بہت ادا کرتے۔ سفر سے واپس آکر دو نفل پڑھتے۔ جب بھی کوئی پریشانی آتی تو نوافل ادا کرتے۔ آپ کے قبولیتِ دعا کے بے شمار واقعات ہیں ۔ اکثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ہو جاتا۔ کبھی بغیر ارادہ کے کسی ایسے راستہ پر لے جاتا کہ اُدھر جانے سے کوئی نہ کوئی فائدہ پہنچتا۔ اس پر بہت خوشی کا اظہار فرماتے۔ اکثر مالی تنگی کے وقت اپنا بٹوہ دیکھتے اور اُس میں جو کچھ ہوتا وہ صدقہ کردیتے۔ پھر اکثر بتاتے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے غائبانہ طور پر آپ کی مدد کی۔ جب آپ کے پاس رقم ہوتی تو کبھی کنجوسی نہ کرتے۔ بہت کھلے دل کے مالک تھے۔ کوئی مشکل درپیش ہوتی تو یہی نصیحت کرتے کہ صبر کرو اور دعا کرو۔ اکتوبر 1997ء میں ازبکستان گئے جہاں کچھ جماعتی اور ادبی مصروفیات تھیں ۔ وہاں دل کا دورہ پڑا اور ہسپتال میں داخل کروادیا گیا۔ انتہائی پریشانی تھی۔ واپسی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور آپ کو جرمنی لانے کا بندوبست ہوگیا۔ یہاں بائی پاس آپریشن کیا گیا اور اس کے بعد آپ تیرہ سال زندہ رہے اور مزید خدمت کی توفیق بھی پائی۔ آپ کی ساری زندگی اس بات کی زندہ مثال ہے کہ انسان دعا کے ذریعہ خداتعالیٰ کا قرب اور فضل حاصل کرسکتا ہے۔