محتر م عبدالرشید ملک صاحب شہید
روزنامہ ’الفضل ربوہ‘‘ 8ستمبر 2012ء میں محترم عبدالرشید ملک صاحب کا ذکرخیر اُن کی اہلیہ مکرمہ الف۔ وسیم صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم عبدا لرشید ملک صاحب نے 28؍ مئی 2010ء کو دارالذکر لاہور میں شہادت کی سعادت پائی۔ آپ حضرت عبدالحمید ملک رضی اللہ عنہ کے ہاں 20؍ اکتوبر 1946ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا حضرت مولوی مہر دین رضی اللہ عنہ آف لالہ موسیٰ 313؍اصحاب میں شامل تھے۔ آپؓ کئی مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ سے ملنے قادیان گئے تھے۔ ایک دفعہ سخت گرم موسم میں حضرت اقدسؑ سے ملاقات کے شوق میں پیدل سفر کر کے قادیان جارہے تھے کہ ایک لمحے کے لئے دل میں خیال آیا کہ واہ مہر دین!تم جس سے ملنے کی خاطر گرمی کی تکلیف برداشت کر کے جارہے ہو وہ تو پنکھے کے نیچے آرام فرما رہے ہوں گے۔ جب مولوی صاحب حضور کے گھر پر پہنچے تو حضورؑ کو گھر کے باہر ٹہلتے ہوئے پایا۔ حضورؑ نے فرمایا: آئیے مولوی صاحب! مَیں آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا۔مولوی صاحب بہت شرمندہ ہوئے اور اسی وقت بیعت کر لی۔
محترم عبدا لرشید ملک صاحب کے نانا حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحب رضی اللہ عنہ کو جنگ عظیم اوّل میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے ہوئے گولی لگی تھی لیکن وہ اسی حالت میں اپنے کام میں مصروف رہے۔ اس بہادری پر گورنمنٹ کی طرف سے انعام سے نوازے گئے۔
محترم ملک صاحب کے والد محترم عبدالحمید ملک صاحب بہت عبادتگزار دعاگو، متقی، پرہیزگار اور خود دار انسان تھے۔ خاموش طبع تھے مگر زبان ہروقت ذکر الٰہی سے تر رہتی تھی۔ آپ کی والدہ مکرمہ سعادت بیگم صاحبہ بھی انتہائی نیک، عبادتگزار، دعاگو اور خدمت خلق کرنے والی خاتون تھیں۔ راولپنڈی میں لجنہ کی سیکرٹری اشاعت اور سیکرٹری رشتہ ناطہ کے عُہدوں پر کام کیا۔
مکرم عبدالرشید ملک صاحب نے راولپنڈی سے میٹرک کرنے کے بعد پولی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ راولپنڈی سے الیکٹریکل انجینئرنگ کا ڈپلومہ کیا اور منگلا پاور ہاؤس میں ملازم ہوگئے۔ دورانِ ملازمت تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ چنانچہ AMIEکا سرٹیفیکیٹ حاصل کرلیا تو 1973ء میں واپڈا میں سب ڈویژنل آفیسر بنادیئے گئے۔ 1976ء میں ایکسین متعیّن ہوئے اور مختلف مقامات پر اہم ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے چیف انجینئر NTDC کی حیثیت سے اگست 2008ء میں ریٹائر ہوئے۔
آپ اپنے وقت کو بہت کم دنیاوی مشاغل میں صرف کرتے۔ MTAکے پروگرام بہت شوق سے دیکھتے تھے۔ دفتر میں پابندیٔ وقت، سچائی اور ایمانداری کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ ہر ایک سے ہمدردانہ سلوک کرنا آپ کی عادت تھی۔ اپنے کاموں کے لئے کبھی کسی سے سفارش نہ کروائی مگر خود ہرایک کی مدد کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ بہت سے ضرورتمندوں کو واپڈا میں بھرتی کرا کے روز گار مہیا کیا۔ ہمیشہ دینی خدمات میں حصّہ لیتے رہے۔ حلقہ اقبال ٹاؤن میں چار سال تک محاسب رہے۔ پھر حلقہ شمالی چھائونی میں شفٹ ہونے کے بعد1994ء سے لے کر تاوقت شہادت سیکرٹری تعلیم القرآن اور سیکرٹری وصایا کے طور پر کام کرتے رہے۔ بچوں، بچیوں اور نوجوانوں کی قرآن کلاسز کا اہتمام کرتے۔ قرآن سمینار ز منعقد کرواتے۔ اپنے حلقے کی اصلاحی کمیٹی کے ممبر تھے۔ معاملہ فہم بھی تھے اور سمجھانے کا انداز بہت مؤثر تھا۔
جہاں بھی سرکاری دورہ پر جاتے وہاں جماعت سے رابطہ کرکے نمازیں اور جمعہ ادا کرتے۔ جلسہ سالانہ ربوہ میں ہمیشہ بڑے اہتمام سے شامل ہوتے۔ ہر مالی تحریک میں شامل ہوتے۔موصی بھی تھے۔ یتامیٰ فنڈ کی تحریک میں ہمیشہ حصّہ لیا۔ اپنے بزرگان کا تحریک جدید کا چندہ بھی ادا کرتے۔ خلفاء سے انتہائی عقیدت اور محبت کا تعلق تھا۔ اُن کی ہر تحریک پروالہانہ لبیک کہتے۔ فیصل آباد میں قیام کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اقتدا میں ربوہ جاکر جمعہ ادا کرتے۔ حضورؒ کی ہجرت کے بعد ہر خطبہ کی کیسٹ گھر والوں کو لاکر سناتے۔ بعدازاں سیٹلائٹ کے ذریعے خطبہ آنے لگا تو ساری فیملی کو لے کر مسجد میں جاکر خطبہ سنتے۔ پھر گھر میں بھی ڈِش لگوائی اور UPSکا اہتمام کیا تاکہ کبھی خطبہ سننے سے نہ رہ جائے۔
آپ اکثر کڑک ہائوس میں نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ 28 مئی 2010ء کو کہنے لگے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ہے کہ کبھی کبھی نماز جمعہ بڑی مسجد میں بھی ادا کرنا چاہئے۔ چنانچہ اُس روز دارالذکر چلے گئے۔ حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے فرمایا۔’’یہ خیال اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں اس لئے ڈالا تھا کیونکہ ان کو اتنے بڑے درجے سے جو نوازنا تھا۔‘‘
مکرم عبدالرشید ملک صاحب اپنی ذات میں دعوتِ الی اللہ کا بہترین نمونہ تھے اور ہر ممکن کو شش کرتے کہ احمدیت کی سچائی کے نُور کو پھیلائیں۔ کار میں خطبہ اور مجلس عرفان کی کیسٹس سنتے تاکہ غیر احمدی ڈرائیور بھی سن لے۔ بارہا مہمانوں کو ربوہ لے کر گئے اور مجالس سوال و جواب کروائیں۔ خدا کے فضل سے 12پھل حاصل ہوئے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ہمارا گھر جنت کا بہترین نمونہ تھا۔مَیں نے اپنے مرحوم شوہر کے ساتھ بہت آرام کی زندگی گزاری۔وہ اللہ تعالیٰ اور پیارے رسول مقبول ﷺ کی رضا کو ہر بات میں مدّنظر رکھتے تھے،ہر کام میں مجھے برابر کی اہمیت دیتے۔ میری پسند ناپسند اور آرام کا بہت خیال رکھتے۔ اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا بھی عبادت ہے لہٰذا میری ضروریات کا اس جذبہ کے تحت خیال رکھتے تھے۔اور پوچھتے تھے کہ کیا تم گواہی دو گی کہ میں نے آپ کا پورا خیال رکھا۔ ہر نیکی کر کے میرے کھاتے میں ڈال دیتے تھے کہ یہ تمہاری وجہ سے کام کیا ہے۔ تین بیٹیا ں تھیں جنہیں اعلیٰ دینی تربیت اور تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔گھر میں باجماعت نماز کا اہتمام کرتے، انتہائی پُرسوز آواز سے تلاوت قرآن کرتے۔ اولاد سے انتہائی محبت کرتے۔ ایک شفیق باپ تھے۔گھر کے اندر اور باہر بیوی اور بچیوں کے تحفظ کا اس قدر خیال رکھتے کہ ہر جگہ خود لے کر جاتے۔ نماز بہت خضوع و خشوع سے ادا کرتے۔یوں محسوس ہوتا جیسے دنیا سے لاتعلق اور واقعتاً خدا کے حضور حاضر ہوں۔ انتہائی قناعت پسند اور خدا کی رضامیں راضی رہنے والے تھے۔ ہر وقت خدا کے شکر اور حمد میں مصروف رہتے۔ دعا پر یقین انتہائی درجے کا تھا۔بچے کسی خواہش کا اظہار کرتے تو خدا سے مانگنے کی تلقین کرتے۔ایک دفعہ ایک بیٹی نے بچپن میں ایک جوتے کو خریدنے کی خواہش ظاہر کی جو قدرے مہنگا تھا۔ اُس نے سجدے میں اس کو پانے کے لئے دعا کی۔ جب آپ کو علم ہوا تو فوراً وہ جوتالے دیاتا کہ دعا پر بچی کا یقین پختہ ہو جائے اور پھر جوتا دلانے کے بعد بچی کو خدا کا شکر ادا کرنے کو بھی کہا۔
محترم عبدالرشید ملک صاحب انتہائی نرم طبیعت کے مالک تھے۔ ہر ایک سے ہمدردی سے پیش آتے کسی کی تکلیف برداشت نہ کرتے کبھی کسی کو تکلیف نہ دیتے نہ اپنے ہاتھ سے نہ زبان سے کہ نہ معلوم وہ شخص خدا کے ہاں کتنا مقبول ہو۔ ہمیشہ دوسروں کی خوبیوں پر نظررکھتے۔ کسی محفل میں اگر کسی شخص کی برائی سنتے تو فوراً اسے بھلا دیتے۔ بچوں کو بھی برائی بیان کرنے سے یہ کہہ کر منع کرتے کہ ان کی کوئی اچھائی بیان کرو۔
ان کی عاجزی کا یہ عالم تھا کہ شہادت سے کچھ دن قبل ان کی خالہ زاد بہن ملنے گھر تشریف لائیں۔اُن کے ڈرائیور کو چائے کی پیالی ٹرے میں رکھ کر دینے خود باہر گئے۔ ڈرائیور فون پر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا۔ یہ خاموشی سے اس کا انتظار کرتے رہے اور جب وہ فارغ ہوا تو اُسے چائے پیش کر کے اندر آئے۔ وہ غیرازجماعت تھا۔ آپ کی شہادت پر بہت غمزدہ ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے کبھی ان جیسا نیک شخص نہیں دیکھا۔
رشید صاحب جب کسی کے ہاں ملنے جاتے تو ان کو کم سے کم تکلیف دیتے یہاں تک کہ ایک وقت کا کھانا اگر اس گھر سے کھاتے تو دوسرے وقت باہر سے کھانا کھا آتے۔ کبھی خود سے کہہ کر چائے بھی طلب نہ کرتے اور جب کوئی ان کی خواہش پوری کرتا تو نہایت مشکور ہوتے۔
جنوری2006ء میں ایک ٹرین کے حادثے کا شکار ہوئے۔ بڑی بہن ساتھ تھیں۔ ٹرین کا ڈبہ 50فٹ گہری کھائی میں جاگرا۔ بہن وفات پاگئیں اور آپ کی ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ آئی۔ لیکن بہت ہمت اور حوصلہ کے ساتھ خود کھائی سے باہر آئے۔ جہلم کے قریب ایک ہسپتا ل سے فون کیا۔ گھر والے جب آپ تک پہنچے تو دیکھا کہ چہرہ لہولہان تھا۔ مسکراکر تسلّی دی کہ میں ٹھیک ہوں۔ ہسپتا ل میں داخل ہوکر بھی اپنی تکلیف کی بجائے چھوٹی بہن کا خیال تھا جو عیادت کے لئے پاس تھیں۔ فکرمندی کا اظہار کیا کہ ابھی تک اُس نے کچھ نہیں کھایا پیا۔ پھر اُسے پاس بلا کر پیسے دیئے کہ جا کر کینٹین سے کچھ کھا لو۔
رشید ملک صاحب نے اپنی جان کا نذرانہ بھی خدا کے حضور انتہائی حوصلہ اور صبر کے ساتھ پیش کیا۔ سانحہ کے دوران حالتِ سجدہ میں پاؤں پر گولی لگی۔ گھر والوں کو فون پر بتایا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔اپنی تکلیف کا ذرّہ بھی اظہار نہ کیا اور اسی حالت میں خدا کے حضور حاضر ہو گئے۔ ان کی شہادت پر اپنوں اور غیروں، ہر ایک نے گہرے دُکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ اکثر کے منہ پر یہی الفاظ تھے کہ ’’یہ انسان نہیں فرشتہ تھا۔‘‘