مخالفینِ احمدیت کے حوالہ سے دو خبریں

دو خبریں
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 30؍اکتوبر 1997ء میں شائع شدہ قومی اخبارات کی دو خبریں ہدیہ قارئین ہیں:
1۔ 75 برس پہلے بنی جمیعۃعلماء ہند جس کے صدر مولانا اسعد مدنی ہیں، اپنے مرکزی عہدیداران کے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی وجہ سے مکمل طور پر ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی جمعیت کئی بار خلفشار کا شکار ہوچکی ہے۔ ایک بار کئی علماء نے جمعیت کے صدر پر خودغرضی اور مفاد پرستی کے الزامات لگاتے ہوئے ’ملی جمعیت علماء‘ کے نام سے اپنی الگ تنظیم قائم کرلی۔ دوسری بار کئی دیگر علماء نے اسعد مدنی پر اقرباء پروری اور بددیانتی کے الزامات لگاکر اپنی الگ تنظیم ’مرکزی جمعیت علماء‘ کے نام سے قائم کرلی۔ … اخبار کے مطابق ان لوگوں کی علیحدگی سے مولانا اسعد مدنی پر کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ مولانا نے جرأت بلکہ صحیح معنوں میں بے شرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے علیحدہ ہونے والوں کو 6۔6 سال کے لئے جمعیت سے نکال دیا اور اپنے بھائی کو جنرل سیکرٹری اور بیٹے کو کاموں کا نگران بنا دیا۔ لیکن اب ان چچا بھتیجا میں محاذ قائم ہے اور یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ جمعیت کا انجام کیا ہوگا۔ …کیا جمعیت علماء ہند خاندانی جاگیر ہے جو وراثت میں ملی ہو اور جس کی بندربانٹ گھر میں ہی ہو سکتی ہے؟ (بحوالہ ہند سماچار جالندھر 1997۔10۔21)
2۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری مولانا محمد عثمان سے سوال کیا گیا کہ مجلس کے پاس ایسی کونسی قوت نافذہ ہے جس کے سہارے وہ قادیانیوں سے جنگ لڑتے رہنے کی بات کرتے ہیں اور ان کو کلمہ طیبہ تک پڑھنے سے روکتے ہیں جبکہ کوئی غیرمسلم اگر کلمہ پڑھتا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیںہوتا…۔ مولانا نے جواب دیا کہ میں خود اس عقیدہ پر قائم ہوں کہ اب کوئی نبی نہیں آنے والا … لیکن اس معاملہ کو اس حد تک پہنچا دینا کہ ٹکراؤ اور انتشار کی نوبت آجائے اور امت مسلمہ کی توجہ تعلیم اور روزگار کی طرف سے ہٹ کر ادھر لگ جائے ہرگز مناسب نہیں ہے۔ اس تحریک کی پشت پناہی جمعیت علماء ہند کر رہی ہے مگر جمعیت کے ارباب کو اس کے انجام کی خبر نہیں، ہندوستان جیسے ملک میں ایسی شرانگیزیوں سے صرف نظر کرنا ہی بہتر ہے کہ خدا ہی بہتر بدلہ لینے والا اور سخت پکڑنے والا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ باطل قوتیں دیر سویر خاک ہو جاتی ہیں، یہ تو خداوند قدوس کا فیصلہ ہے کہ فتح تو حق کی ہی ہوگی۔ … لیکن گلی کوچوں میں جلسے جلوس کرکے اور عالیشان ہوٹلوں میں پریس کانفرنس کرکے وہ غلطی نہیں دوہرائی جانی چاہئے جو ملائم سنگھ، وی پی سنگھ، شاہی امام اور شہاب الدین کے پیروکاروں نے بی جے پی کے خلاف ہنگامے کرکے کی تھی۔ اس وقت بی جے پی کی صرف دو لوک سبھا سیٹیں تھیں آج ڈیڑھ سو کے قریب ہیں۔ تو دیکھا یہی گیا ہے کہ جس عنصر کی مخالفت زیادہ تڑک بھڑک کے ساتھ کی جاتی ہے وہ اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔ اسلئے قادیانیت کے خلاف سڑکوںپر جلسہ کرنے سے بہتر ہے کہ جمعیت علماء والے بھی وہی کام کریں جس کے سہارے قادیانی خود کو فروغ دے رہے ہیں۔
(مظفر واصف، سہارنپور، ہفت روزہ ’’نئی دنیا‘‘ 24 تا 30؍جون 1997ء)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں