مختلف مذاہب میں روزہ کاتصور
قرآن شریف میں مومنوں سے ارشاد ہوتا ہے کہ تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو (البقرۃ:183)۔
اس آیت قرآنی سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی اور مذہبی تاریخ میں زمانہ قدیم سے ہی روزہ کا تصورموجود ہے۔ یہ اَور بات ہے کہ ہر دَور اور مذہب میں اس کی تفاصیل کسی حد تک مختلف ہیں لیکن ان کا ایک مشترک مقصد ذہنی و جسمانی پاکیزگی، تقویٰ اور رضائے الٰہی کا حصول ہے۔
ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ، ستمبر، اکتوبر 2006ء میں مکرمہ حسنیٰ مقبول احمد صاحبہ کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں مختلف مذاہب میں روزہ کے تصور سے متعلق حقائق پیش کئے گئے ہیں۔
٭ ہندو مذہب میں روزے کو روحانی ترقیات کا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس مذہب کے ماننے والوں کا خیال ہے کہ روزہ نہ صرف ایمان کا ایک رکن ہے بلکہ یہ خود کو منظم کرنے کا ایک بہترین آلہ ہے۔اس فلسفہ کے مطابق خوراک بندے کی محسوسات کو ایک تشکر کا احساس بخشتی ہے جبکہ فاقہ کشی سوچ بچار اور استغراق کی اہلیتوں میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے۔ روزہ سے متعلق ہندوؤں کا یہ فلسفہ لقما ن کے اس قول کا مصداق ہے جس کے مطابق جب معدہ بھرا ہوا ہوتا ہے تو ذہانت حالتِ نیند میں چلی جاتی ہے، حکمت گونگی ہوجاتی ہے اور جسمانی اعضاء تقویٰ کے کاموں کے قابل نہیں رہتے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’ ہندو مذہب کو دیکھا جائے تو اُن میں بھی کئی قسم کے برت پائے جاتے ہیں اور ہر قسم کے برت کے متعلق الگ الگ شرائط اور قیود ہیں جن کا تفصیلی ذکر اُن کی کتاب ’’دھرم سندھو‘‘ میں پایا جاتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا میں بھی ہندو اور جین مت کے روزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور زرتشتی مذہب کے متعلق بھی لکھا ہے کہ زرتشت نے اپنے پیروؤں کو روزے رکھنے کی تلقین کی تھی‘‘۔ یعنی مختلف دنوں کی اہمیت کے لحاظ سے مہینے کے مختلف دنوں میں مثلاً پورے چاند یعنی بدر کے دن روزہ رکھا جاتا ہے ، اسی طرح گیارھویں کو بھی روزہ رکھتے ہیں۔ مہینے کے علاوہ ہفتے میں بھی چند دن مخصوص ہیں جن میں روزہ دار اپنی سہولت سے دن چن سکتا ہے اور اپنی پسند کے دیوتا اور دیوی کے لئے روزہ رکھ سکتا ہے۔ ایک قسم کا روزہ نو دن تک کا بھی ہوتا ہے۔ روزہ کے دوران کھانے پینے سے مکمل پرہیزکے بجائے چند اشیاء کو اس دن کھانے میں شامل نہیں کیا جاتا اور یہ حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے طے کیا جاتا ہے مثلاً بعض روزے ایسے ہیں جن میں نمک استعمال نہیں کرتے، بعض میں صرف پھل کھاتے ہیں اور اناج ممنوع ہوتا ہے، جبکہ چائے اور مشروبات وغیرہ کی اجازت ہوتی ہے، وغیرہ۔
٭ Judaism حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے یہودا (Juda)کے نام پر ہے جو یُوسف (Joseph) کے بھائی بھی تھے۔آج اس مذہب کی جو شکل ہے، اس کی ابتدا حضرت موسیٰ ؑکے زمانہ میں مصر کنعان میں ہوئی تھی۔ یہ لوگ Old Testament پر یقین رکھتے ہیں جس میں 39کتب ہیں جن میں سے پانچ کتب تورات کی ہیں جو Ten Commandments پر مشتمل ہیں۔ دن میں تین نمازیں پڑھتے ہیں ۔ روزہ عبادات کا ایک اہم رکن ہے۔ حضرت مصلح موعودؑ ان کے روزہ کے بارہ میں فرماتے ہیں:
’’تورات میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طُور پر گئے تو انہوں نے چالیس دن رات کا روزہ رکھا اور ان ایام میں انہوں نے کچھ کھایا نہ پیا۔چنانچہ لکھا ہے:’’سو وہ (یعنی موسیٰؑ) چالیس دن اور چالیس رات وہیں خداوند کے پاس رہا اور نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ372 بحوالہ خروج باب34آیت28 )
حضرت داؤد علیہ السلام زبور میں فرماتے ہیں:
’’میں نے تو ان کی بیماری میں جب وہ بیمار تھے ٹاٹ اوڑھا اور روزے رکھ رکھ کر اپنی جان کو دکھ دیا۔‘‘ (زبور باب 35آیت13)۔
یسعیاہؔ نبی فرماتے ہیں:
’’دیکھو تم اس مقصد سے روزہ رکھتے ہو کہ جھگڑا رگڑا کرو اور شرارت کے مُکّے مارو پس اب تم اس طرح کا روزہ نہیں رکھتے ہو کہ تمہاری آواز عالمِ بالا پر سُنی جائے۔‘‘ (یسعیاہ باب58آیت13)۔
اسی طرح دانی ایل اور یوایل نبی کے ارشادات بھی روزہ سے متعلق ملتے ہیں۔ ماضی میں روزہ اس مذہب کی عبادات میں کافی اہمیت کا حامل رہا ہے لیکن اب زیادہ تر یہ ’’کفارے کے دن کا روزہ‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔اس دن اس مذہب کے ماننے والے کھانے پینے سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے توڑے ہوئے وعدوں کیلئے معافی مانگتے ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ اس دن جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور معافی کے تمام خواستگار خواہ وہ اس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں توبہ کے اس دروازے میں سے داخل ہو سکتے ہیں۔ اس دن نہ صرف کھانے پینے کا ہی روزہ نہیں ہوتا بلکہ چار اور پابندیاں بھی ایک توبہ کرنے والا اپنے اوپر عائد کرلیتا ہے یعنی اس دن پرفیوم اور لوشن، ازدواجی تعلقات ، نہانے دھونے اور چمڑے کے جوتے پہننے سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ توبہ کرنے کے علاوہ اس دن روزہ دار ذاتی محاسبہ اورتجزیہ بھی کرتا ہے اور اپنے ذہن سے ایسے بوجھ اتارنے کا عہد کرتا ہے جو ذہنی آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔
٭ زرتشتی مذہب کی بنیاد حضرت زرتشتؑ نے 1500قبل مسیح ایران میں رکھی تھی۔ اس مذہب کے مطابق دنیا میں دو قوتیں ہوتی ہیں ایک اچھی جسےThe Wise Lordکہا جاتا ہے اور ایک بری جسے The Destructive Spiritکہتے ہیں۔ زرتشت نے ان کو ان سب بتوں کی پوجا سے منع کر کے The Wise Lord کی قوت کے سامنے جھکنے کو کہا۔ یہ لوگ دن میں پانچ وقت باوضو ہوکرکھڑے ہونے کی حالت میںسورج،آگ،یا روشنی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ اس مذہب میں روزہ رکھنا سختی سے منع ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اگر ایک انسان میں کافی طاقت موجود نہیں ہوگی تو وہ برائیوں کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے اور نسل کیسے آگے بڑھا سکتا ہے۔ اس مذہب میں کھانے پینے کی اشیاء میں سے کچھ بھی منع نہیں ہے البتہ ضرورت سے زیادہ کھانا جس کے نتیجے میں کاہلی پیدا ہو سکتی ہے ، منع ہے۔
٭ بدھ ازم کی بنیاد چھٹی صدی عیسوی میں ایک ہندو شہزادے نے انڈیامیں رکھی، یہ ہندواِزم سے نکلا ہوا ایک مذہب ہے۔جہاں مہاتما بُدھ کو تصویروں میں Fasting Buddhaکے روپ میں دکھایا جاتا ہے وہاں اس کے برعکس بدھ ازم میں روزے کی اب پہلے جیسی پابندی نہیں ہے۔ان کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ یہ مذہب کسی خاص عقیدے کا پابند نہیں بلکہ آزادی اور آسانی پسند مذہب ہے۔ہر برائی کا نتیجہ برا ہوتا ہے اور کوئی توبہ اور روزے وغیرہ اس برائی کے اثر کو زائل نہیں کر سکتے جب تک کہ اس کی سزا نہ ملے، برائی کی سزا سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ مکمل طورپر برائی چھوڑ دی جائے۔اسی مذہب کے ایک اور گروہ کے مطابق مہینے میں چار دن مقدس ہوتے ہیں جنہیں Fast days کہتے ہیں لیکن مکمل روزہ یعنی کھانے پینے سے مکمل پرہیز اس مذہب کے ارکانِ عبادت میں شامل نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مہاتما بُدھ نے اپنی زندگی کے کئی سال مسلسل روزہ کی حالت میں گزارے اور بہت عرصہ نہایت قلیل مقدار (دن میں چند دانے چاول) کی خوراک میں گزارہ کیا۔
٭ شنٹوازم کا لفظی مطلب ہے “The Way of the gods” ۔ اس مذہب کا کوئی ایک باقاعدہ بانی نہیں ہے بلکہ 600 قبل مسیح کے کچھ عقائد کو ایک نظام کے تحت ترتیب دے کر کتابوں کی صورت میں یہ مذہب منظر عام پر آیا۔ چھٹی صدی عیسوی میں ان عقائد پر کام ہوا۔ مذہبی رہنما جنہوں نے پوجا کے دوران چڑھاوے چڑھانے ہوتے ہیں وہ اس تقریب کیلئے خود کو روزہ رکھ کر اورباوضو ہو کر تیار کرتے ہیں۔ کچھ تو بڑے خداؤں کی پوجا کیلئے تین دن کا روزہ رکھتے ہیں اور کچھ دوسرے درجے کے خدا یا دیوی دیوتا کیلئے دو دن کا روزہ رکھتے ہیں۔روزہ دار بعض مخصوص غذائیں مثلاً لہسن اور پیاز، شراب وغیرہ سے پرہیز کرتا ہے اس کے علاوہ آسائشوں کا استعمال اور میوزک سننا وغیرہ بھی روزہ کی حالت میں ممنوع متصور ہوتا ہے۔ روزہ کیلئے پوجا کے دنوں کے علاوہ کوئی اور مخصوص دن نہیں ہیں۔
٭ کنفیوشین ازم کے بانی شئی کنگ (کنفیوشیئس) تھے۔ اس مذہب کی عبادت کا محور پانچ بادشاہوں کی کتابیں ہیں اور چھٹی خود کنفیوشیئس کی ہے جو ان کی وفات کے بعد مرتب کی گئی تھی۔ان کتابوں کا اصل مقصد Divine Law, Moral, & Ethical قدروں کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنا ہے۔ لٹریچر میں ان کی عبادت کا کوئی طریق بیان نہیں کیا گیا ہے۔
٭ جین ازم یعنی فاتحین کا مذہب۔ اس کی ابتدا انڈیا میں پانچویں صدی قبل مسیح میںہوئی تھی اس مذہب کے بانی کا نام شہزادہ مہاویرا ہے۔ ان کے مندروں میں چوبیس بزرگوں اور بتوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دن میں کم از کم ایک مرتبہ ایک گھنٹہ بغیر وقفہ کے ہر جینی مراقبہ کرتا ہے کہ وہ کیسے اس دنیا میں پرسکون ہوسکتا ہے اور روحانی بلندی حاصل کر سکتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو روزانہ تین بار یہ مراقبہ کیا جاتا ہے۔ اس مذہب میں روزے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، روحانی ترقی کے علاوہ روزہ کا مقصد مہاویرا کی اس قربانی کی یاد کو منانا ہے جب مہاویرا تقریباً چھ ماہ تک مسلسل روزے کی حالت میں رہا۔ جین ازم میں خواتین مردوں اور راہب، راہباؤں وغیرہ سے زیادہ روزے رکھتی ہیں۔ روزوں کے لئے دنوں کی کوئی قید نہیں ہے۔ جینی اپنی سہولت سے سال میں کسی بھی وقت روزہ رکھ سکتا ہے البتہ مون سون کے دنوں اورتہواروں پر روزوں کا زیادہ رواج ہے۔ روزے میں کھانے پینے کے لحاظ سے مختلف قسم کی پابندیاں ہیں۔ مکمل طور پر کھانے اور پینے سے پرہیز، اپنی بھوک سے کچھ کم کھانا، اپنے کھانے کی ورائٹی کو کم یا محدود رکھنے کی نیت کرنا اور روزے کے دن اپنی پسندیدہ ترین خوراک سے پرہیز رکھنا وغیرہ ۔ بعض راہب مہینوں بلکہ سال تک روزہ کی حالت میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس مذہب میں موت تک کا روزہ بھی جائز ہے۔ جب ایک جینی یہ سمجھتا ہے کہ اب اس کا جسم روحانی لحاظ سے بیکارہو چکا ہے اور موت یقینی ہے تو وہ اس موت کی تیاری میں کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔
٭ ٹاؤازم کی بنیاد چین میں چھٹی صدی قبل مسیح میں لاؤزے نے رکھی۔ چونکہ ان کی عبادت کا کوئی اپنا طریق نہیں ہے اس لئے زیادہ تر یہ لوگ بدھ مت کے دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں، آباؤ اجداد کے مزاروں، تصویروں یا نام کی تختیوں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ اس مذہب میں روزے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اس کا مقصد اپنے جسم اور ذات کو پلیدگیوں سے پاک رکھنا ہے۔ان کے عقیدے کے مطابق بظاہرایک رزیل و ناپاک شخص بھی حالتِ روزہ میں بہترین عبادت گزار متصور ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ روزہ ارواح اور جنّات سے ملاقات کا ایک قطعی اور یقینی ذریعہ ہے۔
٭ عیسائیت کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے فلسطین سے ہوا۔ عیسائی اپنی عبادت میں عہد نامہ جدید کو شامل کرتے ہیں، جس میں انجیل کی چار کتابوں کے علاوہ 23اور کتابیں بھی شامل ہیں۔ ان کی انفرادی عبادت میں کوئی خاص طریق نہیں۔ جبکہ باجماعت عبادت میں مقدس کتاب میں سے پڑھنا، خطبات سننا، ساز کے ساتھ گانا سننا اور گانا وغیرہ شامل ہے۔ روزہ سے متعلق حضرت مسیح علیہ السلام کی اپنے حواریوں کو ہدایت کی کہ:
’’جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اُداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا مُنہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ اُن کو روزہ دار جانیں میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پاچکے۔ بلکہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور مُنہ دھو تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزہ دار جانے۔ اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔‘‘ (متی باب6 آیت16 تا 18، تفسیر کبیر جلد دوم)
پہلے پہل عیسائیت میں یہ بات عام پائی جاتی تھی کہ خوراک چونکہ ایک دنیاوی لذت کا ذریعہ ہے اور اس کے ذریعہ سے جسم میں شیطان داخل ہوتا ہے اور نتیجے کے طور پر انسان روحانیت سے دور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب حضرت عیسیٰ ؑکے حواری ایک بدرُوح کو نہ نکال سکے تو’’اُ س کے شاگردوں نے تنہائی میں اُس سے پوچھا کہ ہم اسے کیوں نہ نکال سکے تو اُس نے اُن سے کہا کہ یہ قسم دُعا اور روزہ کے سوا کسی اور طرح نہیں نکل سکتی‘‘ ۔ اس کے علاوہ بسیارخوری کو عیسائیت میں سات مہلک اور جان لیوا گناہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
عیسائیت میں بہت سے فرقے جنم لے چکے ہیں اور کم و بیش ہر فرقے کے پیروکار روزہ کو خدا سے قربت، جسمانی پاکیزگی، عجزوانکساراور مؤاخات کے استحکام کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔عیسائیت کے سب سے زیادہ مروجہ روزوں میں ایسٹر سے چالیس روز قبل اور ایسٹر کے دوسرے روزے شامل ہیں۔اس کے علاوہ دوران ِ سال باقاعدہ ہر ہفتے، ہر عشرے، ہر چالیس دن کے بعد روزے رکھنے کا طریق بھی بہت عام ہے۔ بائبل کے عہدنامہ جدید اور قدیم دونوں میں روزے کی فرضیت کا ذکر ملتا ہے۔ بائبل کے مطابق اور قرآن کریم بھی جس کی تصدیق کرتا ہے ‘ حضرت عیسیٰ ؑ نے چالیس دن اور چالیس راتوں تک روزے رکھے تھے۔اس کے علاوہ عیسائی مبلغین کو بھی تبلیغ کے لئے روزہ کی حالت میں اِرد گرد کے علاقوں میں بھیجا جاتا رہا۔
٭ اسلام میں روزہ کی فرضیت پر اور نفلی روزے رکھنے پر بہت زور دیا گیا ہے بشرطیکہ اس معاملے میںمیانہ روی اختیار کی جائے۔ اسلامی نماز کی طرح اسلامی روزے بھی صرف خدا کی خاطر رکھے جاتے ہیں۔ رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ کچھ اور فرض روزوں کا ذکر بھی قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے ، مثلاً رمضان کے چھٹے ہوئے روزوں کی قضاء، کفّارہ ظہار کے روزے، کفارہ قتل کے روزے، عمدًا رمضان کا روزہ توڑدینے کی سزا کے ساٹھ روزے، کفّارہ قسم کے روزے، نذر کے روزے، حج ِتمتع یا حجِ قران کے روزے، بحالتِ احرام شکار کرنے کی وجہ سے روزہ، بحالتِ احرام سر منڈوانے کی وجہ سے روزہ۔ اور مسنون اور نفلی روزوں میں شوال کے چھ روزے، عاشورہ کا روزہ، صوم داؤد علیہ السلام یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار، یوم عرفہ کا روزہ اور ہر اسلامی مہینے کی 15,14,13تاریخ کا روزہ شامل ہیں۔
٭ سکھ ازم (یعنی حواریوں کا مذہب) شمالی انڈیا کے پنجاب کے علاقہ سے شروع ہوا ۔ بابا نانک اس کے گرو تھے۔ لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ بابا نانک کے کسی جانشین نے اس مذہب کی باقاعدہ بنیاد ڈالی تھی۔ان کی روزمرہ کی عبادت کوئی نہیں ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ بھوکے رہنا یا روزہ رکھنا صحت کیلئے اچھا ہے اگر ڈاکٹر کے مشورے سے کیا جائے لیکن مذہباً روزے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ خدا نے انسان کو جسم دیا ہے یعنی جسم روح کے لئے ایک مندر یا گرجا کی حیثیت رکھتا ہے اور ضروری ہے کہ اس جسم کی نشوونما کا بہترین خیال رکھا جائے ۔
٭ مورمن (1830) فرقہ کی بنیاد Joseph Smith نے امریکہ میں 1830میں رکھی۔ ان کا عقیدہ ہے کہ بائبل تحریف کا شکار ہو چکی ہے (اور اب ان کی اپنی بائبل ہے)اور یہ کہ اب Joseph Smith کو خدا نے نبی بنا کر بھیجا ہے تاکہ عیسائیت کو بچایا جا سکے۔ خدا کی طرف سے ان کے نبی کو جو وحی موصول ہوتی رہی ہے اسے انہوں نے ایک کتاب Book of Mormons کی شکل میں مرتب کیا ہے۔اس کے علاوہ دو اور کتب Doctrines of Covenants & The Pearl of Great Price کو بھی مقدس صحیفوں کا درجہ حاصل ہے۔ ان تعلیمات کے مطابق خدا کبھی انسان تھا اور ایک انسان کیلئے یہ قطعی طور پر ممکن ہے کہ Mormon beliefs پر عمل پیرا ہو کر اس درجہ پر پہنچ جائے کہ خدا بن جائے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدا یعنی The Fatherاس وقت اپنی بیویوں جن کی روحانی اولاد ہے، کے ساتھ ایک سیارے پر جو کہ ستارےKolob کے قریب واقع ہے موجود ہے۔ہر اچھے مورمن کیلئے ضروری ہے کہ وہ کم از کم دو سال تک ایک مبلغ کے فرائض سر انجام دے۔ ان کے عقائد میں سے اہم یہ ہیں:خدا پہلے کبھی انسان تھا اور ہر انسان کیلئے یہ ممکن ہے کہ ایک دن خدا بن جائے اور اپنے سیارے پر جابسے جیسا کہ آج کل خدا ایک سیارے پر بس رہا ہے، ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کبھی Lucifer کے بھائی تھے لیکن حضرت عیسیٰ ؑ زمین پر بسنے والوں کی روحانی ترقی سے متعلق بہتر منصوبہ بندی کرتے ہوئے نجات دہندہ کا درجہ پا گئے، وہ روحیں جو خدا کی راہ میں جوش و جذبہ سے نہیں لڑ سکیں وہ حبشی النسل بن کر زمین پر پیدا ہوئے جبکہ آج جوسفید فام زمین پر ہیں وہ خدا کی طرف سے لڑنے والی مجاہدانہ روحیں تھیں، یہی وجہ ہے کہ Mormanism میں کالے رنگ یعنی حبشی النسل کو مبلغین کا درجہ نہیں دیا جاتا۔
بعض مورمن ہر مہینے پہلی اتوار کو روزہ رکھتے ہیں۔ مسلسل دوپہر تک کچھ نہ کھانا پینا ہی ان کا روزہ ہے۔اپنے دو وقت کے کھانے کے برابر پیسے چرچ کو دیتے ہیں جو چرچ کا پادری ضرورتمندوں کو کھانا کھلانے اور دیگر ضروریات پوری کرنے کیلئے خرچ کرتا ہے۔روزے کے دوران اکٹھے ہو کر دعائیں کرنا روزہ کا اہم جزو ہے اور اس کے بغیر روزے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ روزہ اور دعا کا امتزاج انہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ اکٹھے بیٹھ کر اپنی مذہبی حالت کی طرف توجہ دیں جسے Testimonyکہا جاتا ہے۔ خدا سے مناجات اور قربت کیلئے بھی مورمن روزے کا سہارا لیتے ہیں۔
٭ بہائی ازم (1863 CE) شیعہ فرقہ کی ایک شاخ ہے۔ دن میں صبح دوپہر اور شام کیلئے کُل نو رکعات نماز ادا کی جاتی ہے اور سوائے نمازِ جنازہ کے اور کوئی نماز باجماعت ادا نہیں کی جاتی۔ان نو رکعات پر جو کہ اس مذہب کے بانی ’بہاء اﷲ‘ نے تجویز کی تھیں، سارے بہائی آج تک بھی متفق نہیں ہو سکے اور بیشتر لوگ دن میں ایک بار کھانا کھانے سے قبل خاموشی سے دعا کرنے کو ہی پورے دن کی عبادت کے طور پر کافی خیال کرتے ہیں۔ اس عقیدہ کے مطیع بہائی کیلینڈر کے 19ویں مہینے میں 2مارچ سے شروع ہو کر 20مارچ تک سورج کے طلوع ہونے سے لے کر غروب ہونے تک روزہ رکھتے ہیں۔دیگر مذاہب کی طرح بہائی ازم میں بھی روزے کا مقصد خدا سے محبت اورروحانی ترقیات حاصل کرنا ہے۔ اس شریعت میں روزے میں کھانے پینے سے پرہیز کے علاوہ روز مرہ کے معمولات میں اور کوئی پابندی مذکور نہیں ہے۔
٭ ان مذاہب کے پیروکار کے علاوہ دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا کسی خاص مذہب سے تعلق نہیں ہے لیکن وہ بعض پرانے عقائد اور رسم و رواج سے کچھ اس طرح نسلاً بعد نسل بندھ گئے ہیں کہ آج بھی انہی عقائد پر سختی سے کاربند ہیں۔ ان راسخ الا عتقاد لوگوں کو عام اصطلاح میں Eastern Orthodoxکہا جاتا ہے(یہ عیسائیوں کا ہی ایک فرقہ ہے)، ان کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ یہ روزہ کے دوران گوشت، دودھ سے بنی ہوئی اشیاء اور مچھلی وغیرہ کا استعمال نہیں کرتے۔ روزوں میں Lent یعنی ایسٹر سے چالیس دن پہلے کا روزہ،The Dormition Fast, The Apostle’s Fast,اور The Nativity Fast زیادہ مشہور ہیں۔ بعض استثنائی حالات کے علاوہ ہر بدھ وار اورجمعہ کے دن روزہ رکھا جاتا ہے۔
٭ Pagans ایسے لوگ ہیں جن کا کوئی ایک خاص مذہب نہیں ہے۔یہ لوگ حضرت ابراہیم ؑ کے لائے ہوئے مذہب یعنی خدا کی وحدانیت کے مذہب کو چھوڑ کر مغربی روحانی اور مذہبی اقدار کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ ان کا ایمان ہے کہ خدا ئی قوتیں فطرت کی ہر چیز میں موجود ہیں اور تمام زندہ چیزوں کے لاشعور کے مجموعہ سے ایک ایسی ہستی جنم لیتی ہے جس کو سب سے اوپر مانا جاسکتا ہے اورDeitiesکا درجہ دیا جا سکتا ہے۔اور یہی نہیں بلکہ یہ اقدار مقامی رجحانات کے باعث مزید تغیر پذیر ہوتے گئے۔ جس کا ماڈرن پیگنزم پر یہ اثر پڑا ہے کہ عیسائی ملکوں میں رہنے والے Pagansکا اپنا ایک مذہب ہے جو اپنے اندر عیسائیت کی تعلیمات کا رنگ بھی رکھتا ہے۔ اسی طرحHinduismسے نکلا ہوا Paganism اپنا ایک مختلف رنگ رکھتا ہے۔ بالفاظِ دیگر انہوں نےNatural and Polytheistic مذاہب کی اقدار کو اپنالیا اور’’ مشرک‘‘ کہلائے۔ ان میں روزے کا رواج ہے۔ روزہ ان کی مذہبی عبادت تو متصور نہیں کی جاسکتی لیکن یہ لوگ طہارت و پاکیزگی کے لئے 21مارچ اور 22ستمبر کو، جب رات اور دن کی لمبائی ایک جیسی ہوتی ہے، روزہ رکھتے ہیں۔ بعض لوگ چاروں موسموں کے شروع میں روزے رکھتے ہیں۔ ان سب روزوں کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ گزشتہ موسم کا اثر زائل کر کے خود کو پورے طور پراگلے موسم کے لئے تیار کیا جائے۔
بہت علمی اور معلوماتی مضمون ہے پڑھ کر بہت لطف آیا اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا