مستجاب الدعوات وجود- خلیفۃالمسیح الرابع
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 8؍ستمبر 2000ء میں فرمایا تھا: ’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں کثرت سے ایسے گواہ موجود ہیں جنہوں نے اس عاجز کی دعاؤں کو کثرت سے قبول ہوتے دیکھا ہے‘‘۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍دسمبر 2000ء میں مکرمہ سیدہ نسیم سعید صاحبہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی قبولیت دعا کے چار واقعات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرے بھائی ڈاکٹر سید برکات احمد صاحب انڈین فارن سروس میں رہے، تاریخ دان تھے، عربی، فارسی، ترکی، جرمن، ہندی، انگریزی اور اردو زبانوں کے ماہر، مصنف اور محقق تھے۔ کئی کتب لکھیں۔ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ میں کئی سال مضامین لکھے۔ حضور انور کی کتاب ’’مذہب کے نام پر خون‘‘ کا انگریزی ترجمہ کیا۔ آپ مثانہ کے کینسر سے بیمار تھے جس کا امریکہ میں آٹھ گھنٹے کا ناکام آپریشن ہوا اور ڈاکٹروں نے چار سے چھ ہفتے کی زندگی بتائی۔ حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تو جواب آیا: ’’دعا کی تحریک پر مشتمل آپ کے پُرسوز و گداز خط نے خوب ہی اثر دکھایا اور آپ کے لئے نہایت عاجزانہ فقیرانہ دعا کی توفیق ملی اور ایک وقت اس دعا کے دوران ایسا آیا کہ میرے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا، مَیں رحمت باری سے امید لگائے بیٹھا ہوں کہ یہ قبولیت کا نشان تھا۔‘‘
چنانچہ حضور کی دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے انہوں نے چار سال تک فعال علمی و تحقیقی زندگی گزاری۔
1986ء میں میرے شوہر بیٹے کی بارات ربوہ سے لاتے ہوئے کار کے حادثہ میں شدید زخمی ہوگئے۔ بائیں آنکھ اور سر پر بہت زخم آئے اور بتیس ٹانکے لگے۔ آنکھ کا نور ضائع ہوگیا۔ چند دن انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہے۔ حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست دی کہ اللہ تعالیٰ معذوری و محتاجی کی زندگی سے بچائے، تو جواباً فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا، دعا کر رہا ہوں۔ انشاء اللہ سعید صاحب پہلے سے بھی زیادہ فعال کام کرتے رہیں گے‘‘۔
چنانچہ سعید صاحب کو خدا تعالیٰ نے نئی زندگی عطا فرمائی، کار خود چلاتے ہیں، صبح سے شام تک مطالعہ اور تصنیف کا کام کرتے ہیں اور حقیقتاً بغیر کسی معذوری کے ایک فعال زندگی گزار رہے ہیں۔
میری بڑی بیٹی خالدہ اہلیہ میجر غفور احمد شرما صاحب کے ایک بیٹی کے بعد تین ابارشن ہوئے۔ کئی علاج کروائے لیکن کوئی فرق نہ پڑا۔ بیٹی بارہ سال کی ہوگئی تو حالات عرض کرکے حضور انور سے دعا کی درخواست کی گئی۔ حضور نے ہومیوپیتھی کا نسخہ دیا اور دعا کی تو ایک ماہ میں ہی اُسکی گود ہری ہوگئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ایک اَور لڑکی اور ایک لڑکا عطا فرمایا۔
میری ایک عزیزہ نے بیرون ملک جاتے ہوئے اپنی کوٹھی کی ذمہ داری مجھے سونپ دی جسے فروخت کرنے کی تجویز تھی۔ لیکن ایک قبضہ گروپ نے کوٹھی پر ناجائز قبضہ کرکے عدالت میں درخواست دے دی کہ اُن کے رقم دے دینے کے باوجود بھی کوٹھی اُن کے نام منتقل نہیں کی جارہی۔ عدالت نے اعلیٰ افسران کو ہم سے تعاون کے لئے کہا لیکن ہمیں اُلٹا دھمکیاں دی گئیں اور تین روز تک تھانہ میں پرچہ بھی نہ کٹوایا جاسکا۔ ایسے میں اچانک خیال آیا اور حضور کی خدمت میں دعا کے لئے فیکس کی۔ فیکس کرنے کے چند ہی گھنٹے کے اندر حالات بدل گئے۔ ایک ہی دن میں مسلح ڈاکو اپنی چار پجیرو گاڑیوں سے سمیت گرفتار کرلئے گئے۔ ہر جاننے والا حیران تھا کہ ایسے معاملات میں تو عمریں گزر جاتی ہیں لیکن کبھی کچھ نہیں بنتا۔
اسی طرح کے ہزاروں واقعات افراد جماعت نے مشاہدہ کئے ہیں جو ازدیاد ایمان کا باعث ہوتے ہیں۔ حضور ہمیں تسلّی دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
الگ نہیں کوئی ذات میری تمہی تو ہو کائنات میری
تمہاری یادوں سے ہی معنون ہے زیست کا انصرام کہنا
لیکن ساتھ ہی ہمیں تقویٰ و اخلاص کی نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا:
کوئی احمدیوں کے امام سے بڑھ کر کیا دنیا میں غنی ہوگا
ہیں سچے دل اس کی دولت، اخلاص اس کا سرمایہ ہے