مسجد بیت الرحمٰن کھلنا (بنگلہ دیش) کے شہداء کا ذکر خیر
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11 اور 12؍اکتوبر 2002ء میں مکرم محمد امداد الرحمٰن صدیقی صاحب مبلغ سلسلہ نے بنگلہ دیش کے شہر کھلنا کی احمدیہ مسجد بیت الرحمٰن میں ہونے والے اُس بم دھماکہ کا ذکر کیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں سات احمدی مخلصین نے شہادت کا جام پیا اور متعدد شدید زخمی ہوئے۔
آپ رقمطراز ہیں کہ 8؍اکتوبر 1999ء بروز جمعۃالمبارک عین اُس وقت جب مَیں خطبہ جمعہ دے رہا تھا تو اچانک شدید دھماکہ ہوا اورمَیں گر پڑا۔ ابتدا میں مجھے خیال آیاکہ شاید بجلی کی تاریں آپس میں الجھ گئی ہون گی۔ مَیں نے اونچی آواز سے مدد کیلئے پکارا لیکن کوئی نہ آیا، دھوأں بہت زیادہ تھا، کچھ دکھائی اور سنائی نہ دیتا تھا۔ بہت ہمت کرکے مَیں سینہ کے بل گھسٹ کر مسجد کے مشرقی صحن میں آگیا۔ مَیں نے دیکھ لیا تھا کہ میرا دایاں پاؤں کٹ کر جلد سے لٹک رہاتھا۔ بڑی مشکل سے کافی دیر بعد مجھے ہسپتال پہنچایا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جہاں مَیں کھڑا تھا وہاں سے چار فٹ کے فاصلہ پر بم پھٹا ہے۔ میرا زندہ رہنا معجزہ تھا بم کے اندرسے لوہے کے صرف پانچ زہریلے ٹکڑے مجھے لگے۔ ایک ٹکڑے سے ایک پاؤں کٹ گیا۔ دیگر ٹکڑوں سے زخمی توہوا مگر بچاؤ ہوگیا۔ الحمدللہ۔
ایک معجزہ یہ ہوا کہ ماہرین کے مطابق یہ بم سیدھا آسمان کی طرف بلند ہونا چاہئے تھا اور جتنی بلندی تک جاتا اتنی ہی زیادہ تباہی مچاتا۔ جبکہ بم مسجد کی مغربی دیوار کی طرف گیا اور پکی دیوار توڑ کر باہر نکل گیا جس سے بہت کم جانیں تلف ہوئیں۔ اسی طرح بم اُس وقت پھٹا جب خطبہ ہو رہا تھا ورنہ اگر ہم نماز میں کھڑے ہونے کی حالت میں ہوتے تو بہت زیادہ جانیں تلف ہوتیں کیونکہ زہریلے ٹکڑے اوپر کو زیادہ پھیلتے اور تباہی مچاتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی مخالفین کئی دفعہ اس مسجد پرحملہ کرتے رہے، 90-1989ء میں پٹرول چھڑک کر آگ لگادی گئی۔ چھوٹے چھوٹے دھماکہ خیز گولے پھینکتے رہے مگر نہ کوئی بم پھٹا اور نہ آگ پوری طرح لگی۔
جب مَیں ہسپتال پہنچایا گیا اور کچھ سوچ وبچار کر سکا تو میں نے یہ دعا کی کہ اے اللہ ! اس حادثہ کے ذریعہ توُ جو قربانی ہم سے لینا پسند فرمائے اس کے عوض ہمارے پیارے آقا ایدہ اللہ کو صحت و تندرستی والی لمبی عمر عطا فرما اور جماعت بنگلہ دیش کو بھی ترقیات عطا فرما۔
اس حادثہ کے سب شہداء کے ساتھ سالہا سال سے میرا روز کا واسطہ اور انتہائی دلی محبت کا تعلق تھا۔ ان کی شہادت نے میرا ایمان بڑا مضبوط کیا اور یہ عقیدہ پختہ ہوا کہ یہ مقام صرف انہی کو مل سکتاہے جن پر خدا کا بہت بڑا فضل ہو، پاک سیرت، نیک کردار ، ایسے لوگ ہی قبول کئے جاتے ہیں جن کو خدا نے خود اپنے ہاتھ سے صاف کیا ہو۔ ان شہداء کا مختصر ذکر خیر حسب ذیل ہے۔
(1)… نورالدین احمد ولد محترم سکندر حیات صاحب، عمر 30سال۔ 24؍اگست 1970ء کو ویٹ کھالی، ضلع Shatkhira میں پیدا ہوئے۔ یہ گائوں سندربن جماعت کے علاقہ میں ہے۔ ان شہداء میں اکثرکا تعلق اسی سندربن جماعت سے ہے۔
عزیزم نورالدین شہید کو دس بارہ سال سے جانتا ہوں۔ بہت مخلص ، فدائی ، دیندار تھے۔ ہر نیکی کے کام میں پیش پیش رہتے تھے۔ خوش الحانی سے تلاوت اور نظم پڑھتے تھے۔ ان کے دادا مرحوم و مغفور سقیم الدین صوفی صاحب اس علاقہ میں پہلے احمدی تھے۔ عزیزم نورالدین وقف زندگی کرکے مربی بننا چاہتے تھے مگرپاکستان کی حکومت جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم پانے کے خواہشمندوں کو ویزہ نہیں دیتی تھی اور قادیان میں تعلیم کے لئے بھی ویزا حاصل نہ کرسکے۔ خدام الاحمدیہ کے بہت سرگرم رکن رہے۔ شہادت کے وقت آپ کھُلنا جماعت کے جنرل سیکرٹری تھے۔ نہایت پیاری میٹھی زبان ، ہنس مکھ ، ہردلعزیز تھے۔ خوب دعوۃ الی اللہ کرتے تھے۔ وفات کے وقت ایک بیوی ، والدین ، تین بھائی اور تین بہنیں سوگوار چھوڑے۔ ابھی تک ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔
(2)…پیارے عزیز م محمد جہانگیر حسین،عمر 24 سال ،بی کام کے طالب علم تھے۔ والد صاحب کا نام محترم غازی محمد اکبر حسین ہے۔ سکنہ دِیارا ضلع کھُلنا۔ تعلیم کی غرض سے سندر بن جماعت میں اپنے ننہال میں قیام پذیر رہے۔ کالج لائف میں کھُلنا جماعت میں آگئے۔ شہادت کے وقت مجلس خدام الاحمدیہ کے معتمد تھے۔ بہترین داعی الی اللہ تھے۔ جس ٹیم میں محمد جہانگیر شامل ہوتے تھے اس ٹیم کو زیادہ بیعتیں حاصل ہوتی تھیں۔ نہایت خوبصورت، خوب سیرت، نوجوان، ذہین و فطین، زیرک اور ارادے کے پکے ، سچی اور کھری بات کرنے والے ہردلعزیز نوجوان تھے۔ تمام زیر تبلیغ اور نومبایعین عزیز جہانگیر کو اپنا سب سے پیارا دوست جانتے تھے۔ علاقہ کے حالات اورموقع کی نزاکت اور مخالفت کے موقع پر صحیح سوچ اور اقدام کر سکنے والے نوجوان تھے۔
(3)…غازی محمد اکبر حسین صاحب شہید۔ عمر 39سال۔ والد صاحب کا نام ابوبکر صدیق مرحوم ہے۔ جائے پیدائش مَٹھ باڑی ضلع کھُلنا۔ 1997ء میں بیعت کی توفیق پائی۔ تب سے شہادت تک شدید مخالف حالات دیکھے۔ بی اے پاس تھے۔ کچھ عرصہ ٹیچر رہے۔بعد میں محکمہ سیٹلمنٹ میں ملازم ہو گئے جہاں رشوت لازمی سمجھی جاتی ہے لیکن آپ ایسے دیانتدار اور امانت دار تھے کہ باوجود شدید مخالفت کے آپ ایک فاتح مبلغ بنے رہے۔ طریق تبلیغ انتہائی مؤثر تھا۔ دور دورکے علاقہ تک آپ کی وجہ سے احمدیت کی تبلیغ پھیلی۔ پھر آپ کی اہلیہ فیروزہ بیگم صاحبہ بھی احمدی ہوگئیں۔ جماعت کی ہر تحریک پرلبیک کہتے تھے۔ جن دنوں حضور انور خطبات میں شہداء احمدیت کا ذکر فرما رہے تھے ان دنوں آپ نے حضور کی خدمت میں شہید ہونے کی تمنا ظاہر کر کے دعا کے لئے لکھا تھا۔ یہ دعا بہت جلد قبول ہوگئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آپ کھُلنا شہر سے دُورقیام پذیر تھے۔ ہر جمعہ پر نہ آسکتے تھے لیکن ایک دو ہفتوں بعد جمعہ کے لئے آ جاتے تھے۔ اس جمعہ کو انہیں آنا نہیں تھا۔ جب وہ تشریف لائے تو مجھ سے مل کربہت خوش ہوئے اور کہنے لگے مربی صاحب مَیں نے آج آنا نہیں تھا لیکن اچانک ارادہ بن گیا اورمَیں آگیا ہوں۔
آپ بہت خاموش طبع ، انتہائی شریف النفس اورمخلص احمدی تھے۔ مرحوم کے بہت نیک سیرت ہونے کی وجہ سے ان کے تمام جاننے والے ان کے بڑے مداح تھے۔ احمدیت کی وجہ سے شدید مخالفت کے باوجود سب اقرار کرتے تھے کہ مرحوم نہایت پاک سیرت آدمی تھے۔ مرحوم نے اپنی بیوی کے علاوہ دو لڑکے پسماندگان میں چھوڑے ہیں۔
(4)…برادرم محترم سبحان علی موڑل صاحب شہید 65 سال کے تھے۔ جماعت سندربن کے گاؤں جوتندرنگر سے تعلق تھا جو جنگل سندربن کے بالکل ساتھ واقع ہے۔
اس دفعہ سندربن کے جلسہ سالانہ پر حاضری چار ہزارسے زیادہ تھی۔ بنگلہ دیش میں یہ ہمارا سب سے بڑا جلسہ ہے۔ جیسے یہاں قدرت کے حسین مناظر ناظرین کو مسحور کرتے ہیں ویسے ہی یہاں کے پیارے احمدی احباب کی سادگی اوراخلاص اورمحبت اور مہمان نوازی دیوانہ بنا دیتی ہے۔ برادرم سبحان علی موڑل اس جماعت کے فرد تھے۔ تعلیم زیادہ نہیں تھی مگر دل میں اللہ و رسول ؐ کی محبت بھری ہوئی تھی۔ کامیاب داعی الی اللہ تھے اور اس سال دیہاتی معلم بھی بن گئے تھے۔ آپ کی کوشش سے ایک اچھی جماعت قائم ہو گئی ہے۔ جگہ جگہ تبلیغ کے لئے جاتے تھے اور دیہاتی انداز میں دل موہ لینے والی گفتگو کرتے تھے۔ سفید ریش سے مزین چہرہ تھا اور مشرّع تھے۔ مخالفوں نے آپ کو ایک بار زدوکوب بھی کیا۔ مَیں حیران ہوں کہ اس قدر دُور دراز علاقہ کے اَن پڑھ لوگ جنہوں نے قادیان نہیں دیکھا، ربوہ نہیں دیکھا، حضرت صاحب کو نہیں دیکھا ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسیہ کے ذریعہ سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا نور دیکھا اوراس پر فدا ہوگئے۔ آپ مجھ سے کہتے تھے مربی صاحب! زندگی تو گزر ہی گئی ہے دعاکریں کہ باقی ہر قدم اورہر سانس جماعت کیلئے وقف کرتا رہوں۔
اس خوش قسمت بھائی نے بھی سندربن میں جمعہ پڑھنا تھا۔ لیکن خاکسار نے پیغام بھیجا تھا کہ آپ اگر کھُلناآسکیں تو آپ کے ساتھ مَیں آپ کی نئی جماعت دیکھنے جائوں گا۔ میرا پیغام ملتے ہی کھُلناچلے آئے۔ اگرچہ بعد میں مَیں نے یہ پیغام بھی بھیجا کہ آج نہ آئیں لیکن یہ پیغام انہیں نہیں ملا۔ آپ نے اپنے پیچھے ایک بیوی ، 5 لڑکے اور 4لڑکیاں چھوڑی ہیں۔ چھوٹے وقف نوبیٹے عزیزم غلام رسول عمر 7سال کے سوا سب شادی شدہ ہیں۔
(5)…ایک اور انتہائی پیارے نوجوان عزیزم غازی محمد محب اللہ صاحب عمر 35سال (جن کے والد محترم مطیع الرحمن صاحب اُن دنوں سندر بن جماعت کے صدر تھے)۔ شہید مرحوم 1992ء میں جلسہ سالانہ یوکے پر تشریف لائے اور جائز قانونی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دو سال انگلستان رہنے کے بعد واپس کھُلنا میں قیام پذیر ہوگئے اور خدمت دین اور خدمت خلق پرکمر بستہ ہوگئے۔ آپ 13؍اگست 1969ء کو جوتندرنگر (سندربن جماعت) میں پیدا ہوئے۔ ابتداء سے ہی ہونہار تھے۔ سندربن ہائی سکول سے میٹرک کرکے کالج لائف کھلنامیں آ کر شروع کیا تھا جہاں خاکسار مربی متعین تھا۔ ہرتحریک پر لبیک کہتے۔ خدام الاحمدیہ کے روح رواں تھے۔ اجتماعات میں بہت سے انعامات حاصل کرتے۔انگلستان میں قیام کے دوران بنگلہ ڈیسک سے تعلق رہا ا ور ہر طرح خدمت کرتے رہے۔ کھُلنا واپس آ کر پھر جماعت کھلنا کے لئے بہت تقویت کا باعث بنے۔ محترم ڈاکٹر عبدالماجد صاحب کے ساتھ کاروباری طورپر اور جماعتی کاموں میں مشغول ہوگئے تھے اوراکٹھے شہید ہوئے۔ آپ کھُلنا ڈویژن کے قائد خدام الاحمدیہ تھے۔ آپ کے وقت میں اس ڈویژن نے اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اس کے علاوہ سیکرٹری وقف نو اور سیکرٹری رشتہ ناطہ بھی تھے۔ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ ملنسار، ذہین، زیرک، سمجھدار، فدائی اور ہر ہرکام کو عمدگی سے کرنے والے تھے۔ اچھے لکھنے اور بولنے والے تھے۔ اچھے منتظم اور علاقہ کے ایک مثالی خادم تھے۔ غیراحمدیوں کے ساتھ بھی وسیع تعلقات تھے۔
(6)…محترم ڈاکٹر عبدالماجد صاحب شہید عمر 42 سال، نہایت مخلص فدائی احمدی تھے۔ اپنے والد مکرم مصر علی غازی صاحب کے گھر سکنہ منشی گنج ضلع Shatkhira میں 21؍جون 1957ء کو پیدا ہوئے۔ پرائمری کے بعد سندربن ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ اور سندربن جماعت کے بانی صدر مرحوم شمس الرحمن صاحب کے وسیع وعریض دولت خانہ میں رہائش پذیررہے۔ شمس الرحمن صاحب مرحوم ایک عظیم المرتبت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے اپنی جائیداد کی بھاری مالی قربانی اور لمبا عرصہ محنت کرکے سندربن ہائی سکول کوقائم کیا تھا۔ آپ جماعت احمدیہ کے صدر تھے۔ علاقہ کی یونین کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ جو طلباء دور سے آکر سکول میں داخل ہوتے ان کا بلالحاظ مذہب و ملت اپنے گھرمیں قیام وطعام کا بندوبست کردیتے۔ اس زمانہ میں بہت دور دور تک اورکوئی ہائی سکول نہیں تھا۔
ڈاکٹر عبدالماجد صاحب نے سکول میں تعلیم کے دوران قبول احمدیت کی سعادت پائی۔ سندربن ہائی سکول سے میٹرک کر کے شہر میں آ کر سندر بن کالج سے انٹرمیڈیٹ میں نمایاں کامیابی کے ساتھ گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اس کے بعد Barishal میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا اور Kalaroa میڈیکل سنٹر میں میڈیکل آفیسر متعین ہوئے۔
1989ء میں آپ بسلسلہ ملازمت ایران تشریف لے گئے۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے تھے جہاں آپ کو حضر ت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کی صحبت سے استفادہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ 1995ء میں آپ نے لندن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آکر کھُلنا شہرمیں پرائیویٹ کلینک کھولا۔ آپ کے واپس آنے سے جماعت کھُلنا کوبڑی خوشی اورتقویت حاصل ہوئی۔ آپ خدام الاحمدیہ کھُلنا کے قائد مجلس بھی رہے۔شہادت کے وقت آپ زعیم انصاراللہ اور سیکرٹری تبلیغ تھے نیز جماعت کے سیکرٹری وصایا اور اپنے حلقہ کے صدر بھی تھے۔ باوجود نمایاں پوزیشن اور حیثیت رکھنے کے خدام کے ساتھ ہر کام میں حصہ لیتے تھے۔ تبلیغ کے لئے دیہات میں جاتے۔ مسجد کے فرش پر دوسروں کے ساتھ رات کو سو جاتے۔ مرکزی مہمان آپ کے گھرمیں قیام کرتے۔ آپ نے اپنی گاڑی، اپنا وقت، اپنا گھر، سب کچھ جماعتی کاموں کے لئے وقف کررکھاتھا۔ غرباء کا مفت علاج کرتے اور بذات خود خادم کی طرح خدمت کرتے۔آپ کی اہلیہ مکرمہ قرشیہ ماجد صاحبہ اور بیٹیاں بھی خوب خدمت کرتیں۔
مکرم ڈاکٹر صاحب بہت مخلص، بے نفس، خدمت گزار، محبت کرنے والے انسان تھے۔ آپ کی کوشش سے بہت سے احمدی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مہیا ہوئے۔ آپ نے اور شہید محب اللہ صاحب نے مل کر Fazl e Omar Alergy & Esthma Centre اور پیتھالوجی (Pathology)کی لیبارٹری کا اجراء کیا تھاجس سے شہر کے لوگوں کوبہت فائدہ ہوا۔ بم دھماکہ میں آپ شدید زخمی ہوئے اور ہسپتال جا کر جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔آپ نے پیچھے سوگوار بیوی اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
(7)… بہت مخلص بھائی ممتازالدین احمد صاحب آغاز 1982ء سے ہی کھلنا مسجد اور کمپلیکس کے خادم مسجد، مؤذن اور نگہبان مقرر تھے۔ اس زمانہ میں صرف ممتاز الدین صاحب اور محترم عبدالعزیز صاحب (سابق صدر کھلنا) موجودہ نائب امیر ڈھاکہ یہاں رہتے تھے۔ روز اوّل سے ہی شدید مخالفت رہی۔ مکرم ممتازالدین صاحب ایک ہرفن مولا قسم کے نایاب گوہر تھے۔ آپ بھی جوتندرنگر یعنی سندربن کے رہنے والے تھے۔ قریباً 55سال کی عمر میں آپ نے شہادت حاصل کی۔ والد مرحوم کا نام غازی کفیل الدین صاحب تھا۔
آپ نے قریباً 1966ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ پھر سندربن جماعت کی مسجد، پھر ڈھاکہ مرکزی مسجد اور اس کے بعد کھُلنا مسجد میں بطور مؤذن اور خادم مسجد قریباً 32 سال تک خدمات سرانجام دیتے رہے۔ کھُلنا مسجد کے بم دھماکہ میں شدید زخمی ہو گئے۔ میری طرح اُن کی بھی ایک ٹانگ گھٹنے کے نیچے سے کاٹ دی گئی۔ بعد میں مزید اوپر سے کاٹنی پڑی۔ بالآخر آپ نے 23؍اکتوبر 1999ء کو پندرہ روز ہسپتال میں رہنے کے بعد شہادت کا رتبہ حاصل کرلیا۔ مرحوم نے اپنے پیچھے ایک بیوی، دو بیٹے اوردو بیٹیاں یادگار چھوڑے ہیں۔
بھائی ممتازالدین کام کے دھنی تھے۔ بہت سے کام کرتے تھے۔ اذان دیتے ، مسجد اور کمپلیکس کی صفائی رکھتے ،حفاظت کرتے۔ ہر چیز کی دیکھ بھال کرتے۔ بجلی مرمت کرتے ، فرنیچر مرمت کرتے۔ الغرض غریب جماعت کی ہرچیز سنبھالتے اور بہت سا روپیہ بچاتے۔ عجیب بات ہے کہ پڑھے لکھے نہ تھے ، صرف بنگلہ پڑھ سکتے تھے مگر ہومیو پیتھی ڈاکٹر تھے۔ کھُلنا جماعت نے فری فضل عمر ہومیوشفا خانہ کھول رکھاتھا مگر تنخواہ دے کر ڈاکٹر نہ رکھ سکتے تھے۔ چنانچہ بھائی ممتاز صاحب بعد نماز ظہر اور بعد نمازعصر لوگوںکو ہومیوپیتھی دوائی دیتے تھے۔ روزانہ بھائی ممتاز صاحب کم وبیش ایک سومریضوں کو دوائی دیتے تھے۔ تعجب یہ ہے کہ بعض دفعہ لاعلاج قرار دئے گئے دولتمندمریض ادھر آجاتے تو قسمت آزمائی کے لئے ممتاز صاحب کی فری پانی والی دوائی لے جاتے اور شفا بھی پاجاتے۔
آپ علاقہ کے لوگوں کی اور بھی ہرطرح سے خدمت کرتے تھے۔ غریب لوگ آپ کے پاس آتے تھے اورلڑکوں کے ختنے کرواتے، چھوٹے موٹے آپریشن بھی کردیتے تھـے۔ کسی کو پھوڑا نکلا ممتاز صاحب نے آپریشن کردیا۔ اپنے پاس انجکشن وغیرہ بھی رکھتے تھے۔ اگر کوئی دوست رقم دیتے تو آپ لے لیتے اور کوئی نہ دے تب بھی کوئی حرج نہ ہوتا۔ کسی کومحروم نہ رکھتے تھے۔
بم دھماکہ کے بعد فوری طورپر ہماری باہمت بہنوں نے برقع پہنے ہوئے دلیری اورہمت سے زخمیوں کی خدمت شروع کردی۔ زخمی کوہسپتال لے کر جانا اور پھر ہسپتال جاکر بھی بہت سی خدمات انجام دینا۔ یہ عظیم عورتیں بجائے چیخ و پکار کے زخمیوں کی ہمت بندھاتی رہیں، دلاسہ دیتی رہیں، اللہ اور رسول کی باتیں کرکے ماحول کوپاکیزہ بنائے رکھا۔ حتی کہ شہیدوں کی بیویوں اور بیٹیوں تک نے انتہائی صبر اور حوصلہ کا ثبوت دیا۔ کمزوری کا کوئی کلمہ کسی کے منہ سے نہ نکلا۔ سب یہی کہتی رہیں کہ ہمارا خدا ہم سے راضی رہے اور ہمارے دین کو ترقی نصیب ہو۔ یہ ایک عظیم الشان نشان ہے جو بغیر دیکھے سمجھنامشکل ہے۔ سبحا ن اللہ! الحمدللہ۔
مردوں میں سے کوئی بھی بغیر زخم کے نہ تھے اگرچہ بعض کو بہت معمولی زخمی ہوئے۔ دھماکہ کی اونچی آواز نے قریباً سب کی شنوائی چھین لی تھی۔ ہمارے احباب میں سے تھوڑے تھے جو خدمت کے قابل تھے۔ زخمی دوستوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن سب بہت ہمت سے حالات کا مقابلہ کر رہے تھے۔ زخمیوں کی خدمت ہسپتال میں دوڑ بھاگ، شہداء کی خدمت، مسجد کی حفاظت بھی اس موقع پربہت اہم تھی۔ اللہ تعالیٰ کا غیرمعمولی فضل و احسان ہے کہ ہر طرف سنبھالنے میں کامیاب ہوئے۔ پولیس، اخباری نمائندے، ریڈیو،ٹی وی کے رپورٹرز سب کو سنبھالنا آسان بات نہ تھی۔ حالانکہ ہمارے کسی آدمی کو کوئی تجربہ نہ تھا۔
کھُلنا سے ایک سو کلومیٹر دُور سندربن کے دوستوں نے بی بی سی ریڈیو سے بعد مغرب خبر سنی اور فوری طورپر ایک گروپ کھُلنا کوروانہ ہوا۔ ڈھاکہ والوں کو بذریعہ فون جلدی خبر مل گئی۔ چنانچہ ڈھاکہ سے بھی ایک ٹیم رات کو پہنچ گئی۔ اس سانحہ کے فوری بعد تمام دنیا کے نیوز میڈیا نے اس خبر کو نشرکیا۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ ، انڈیا کے بعض ٹیلیویژن چینلز، بنگلہ دیش ٹی وی نے خبر نشر کی کہ کھلنا کی مسجد احمدیہ میں بم پھینکا گیا ہے۔ بنگلہ دیش میں قومی سطح کے تمام اخبارات نے کئی روز تک روزانہ تفصیل سے باتصویر خبریں شائع کیں۔ بہت سے مشاہیر کی طرف سے واقعہ کی شدید مذمت کی گئی اور مجرموں کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا گیااور اداریے بھی لکھے گئے۔
زخمیوں کی تعداد 25 سے زائد تھی۔ بعض احباب بہت زیادہ زخمی ہو ئے۔ برادرم عبدالرزاق صاحب بنک آفیسر اور کھُلنا جماعت کے انتہائی اہم رکن ہیں۔ ان کی ایک آنکھ اور پاؤں ضائع ہوگیا۔ برادرم غازی عمر فاروق صاحب دیہاتی معلم ہیں۔ جن کے اور حصوں کے علاوہ گلے میں سانس کی نالی میں سوراخ ہوگیا تھا۔ اب بھی تکلیف ہے۔ مکرم مولوی عبدالودود شیخ صاحب معلم کے دونوں ہاتھ پائوں بُری طرح ٹیڑھے میڑھے ہو گئے ہیں۔ ان کے علاوہ مکرم انعام الحق صاحب رونی ، حافظ منصور احمدصاحب، معلمین کرام اور شیخ مہیمن چنچل بہت زخمی ہو گئے تھے۔