مسجد بیت النور لاہور میں دہشت گرد پر قابو پانے کا آنکھوں دیکھا احوال
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍جولائی 2010ء میں جناب ابن عبداللہ کی ایک انگریزی تحریر کا اردو ترجمہ (از آصفہ اسحاق صاحبہ) شامل اشاعت ہے جس میں مسجد بیت النور لاہور میں دہشتگرد پر قابو پانے کا آنکھوں دیکھا احوال بیان کیا گیا ہے۔
28؍مئی ایک بہت گرم اور گرد آلود دن تھا۔ مَیں کچھ تاخیر سے مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن اپنے خسر کے ہمراہ پہنچا تو پچھلی صفوں میں مرکزی داخلی دروازہ کے قریب جگہ ملی۔میرے خسر اوپر والے ہال میں چلے گئے۔ خطبہ جمعہ کے کچھ دیر بعد ہی میں نے فائر کی آواز سنی۔ تھوڑی سی ہلچل کے بعد اچانک خاموشی چھاگئی۔ مَیں نے سوچا کہ شاید باہر سیکیورٹی پر موجود خدام نے صورتحال کو کنٹرول کرلیا ہے۔ پھر کچھ دیر بعد ہی دوبارہ فائرنگ کی آوازیں قریب سے آنا شروع ہوگئیں۔جس پر مَیں بہت پریشان ہو گیا۔ اسی دوران مسجد کے صحن سے کچھ بم دھماکوں کی آوازیں آئیں۔ میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو حملہ آور بہت زیادہ ہیں اور انہوں نے سیکیورٹی کو بھی عبور کرلیا ہے۔ باہر کرسیوں پر بیٹھے احباب اندر ہال میں آگئے اور دروازے بند کرلئے۔ ہال میں موجود احباب تہہ خانہ میں جانا شروع ہوئے۔ اسی دوران دو حملہ آوروں نے کھڑکیوں کے باہر سے فائرنگ شروع کردی۔ ان کی فائرنگ کا نشانہ بننے والے زیادہ تر وہ بزرگ تھے جو فوری طور پر اپنی جگہ تبدیل نہ کرسکتے تھے۔ چنانچہ چند لمحوں میں ہی مرکزی ہال میں ہر جگہ خون ہی خون دکھائی دینے لگا۔ہال میں زخمی اور بوڑھے احباب ہی باقی رہ گئے جو دیواروں سے لگے بیٹھے تھے۔ گولیاں نشانہ باندھ کر چلائی جا رہی تھیں۔ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے موت کا رقص چل رہا ہو۔ مَیں نے خود کو ایک دیوار کی اوٹ میں چھپا رکھا تھا تاہم سر کو تھوڑا باہر نکال کر ہونے والی صورتحال کا جائزہ بھی لے رہا تھا۔ایک دہشتگرد نے متعد د بار بند ہال میں داخل ہونے کی کوشش اور فائرنگ بھی کی لیکن ناکام رہا کیونکہ دو تین احباب نے اندر سے دروازے کودھکیل کربند کیا ہوا تھا۔ چنانچہ وہ دہشتگرد دوبارہ محرا ب کی باہر کی جانب آیا اور کھڑکیوں سے فائرنگ شروع کردی۔ہر فائر پر گولی کسی نہ کسی کو ضرور لگتی۔ایک بات میں نے خاص طور پر نوٹ کی کہ گولیاں لگنے کے باوجود بھی کسی احمدی نے واویلا یا چیخ و پکار نہیں کی بلکہ نہایت ہی صبر اور ہمت سے تکلیف کو برداشت کرتے رہے۔ یہ اُن کا مضبوط ایمان اور خدا پر توکل تھا۔
مَیں نے دیکھا کہ وہی دہشتگرد دوبارہ عقبی دروازے کی طرف آیا اور قریباً پندرہ فٹ دُور رہ کر اس نے میگزین تبدیل کیا اور دو ہینڈ گرنیڈ نکالے۔ مَیں نے دو تین منٹ تک نہایت ہی خوف اور بے بسی کے عالم میں اس دہشتگرد کی طرف دیکھا جو ہمارے نشانہ پر تھا لیکن افسوس ہم میں سے کسی کے پاس کوئی ہتھیا ر نہ تھا۔ مَیں اپنے دماغ میں منصوبہ بنانے لگا کہ جب یہ گرنیڈ اندر پھینکے گا تو مَیں اس کو کیچ کرکے اسی کی طرف اچھالنے کی کوشش کروں گا۔ مگر جب اُس نے گرنیڈ پھینکا تو وہ میرے پاؤں کی طرف قریب کچھ ہی فاصلے پر گرا جسے دُور ہونے کی وجہ سے مَیں نہ پکڑ سکا۔ ابھی میں ایک طرف تھوڑا سرکا ہی تھا کہ وہ گرنیڈ پھٹ گیا جس کی وجہ سے جنرل ناصراحمد صاحب کا پورا چہرہ اور سینہ بری طرح زخمی ہو گیااور کمانڈر اویس صاحب کی ران اور پیروں پر بھی چوٹیں آئیں۔ وہی دہشتگرد کچھ ہی دیر میں اوپر والے ہال کے عقبی دروازہ میں داخل ہوا اور مرکزی ہال میں گرنیڈ پھینکا جس کی وجہ سے میرا پاؤں بھی زخمی ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ فائرنگ بھی کررہا تھا۔ اُس نے داخلی راستہ میں بیٹھے ہوئے ایک احمدی پر تین فائر کئے۔ پھر میری جانب بڑھا۔ مَیں نے خود کو ایک شہید کے پیچھے چھپا رکھا تھا۔ مجھے لگا کہ اس نے مجھے زندہ دیکھ لیا ہے۔ اُس نے اپنا ہتھیارمیری طرف سیدھا کر لیا۔ اب مجھے یقین ہو گیا کہ اب میں مارا جاؤں گا۔اس وقت مجھے نہ اپنے خاندان کا اورنہ کسی اَور کا خیال آیا بلکہ آیا تو صرف یہ کہ اے خدا ! کیا یہ اختتام ہے؟ اسی لمحے مَیں نے ایک اور سوال خدا سے اپنی مادری زبان میں کیا کہ وہ تمام نظارے اور خواب جو تُو نے میرے مستقبل کے بارے میں مجھے دکھائے تھے کیا وہ سب یہی تھے؟
میرے رحیم و کریم اور حفاظت کرنے والے خدا نے فوراً ہی میرے سوالوں کا جواب دیا اور اس دہشتگرد نے مجھ پر تین گولیاں چلائیں جو مجھے نہ لگیں۔ پھر وہ فائرنگ کرتا ہوا آگے چلا گیا۔ مَیں نے سوچا کہ یہ تو ایک ایک کرکے سب کو ختم کردے گا۔ مَیں اُس وقت لیٹا ہوا تھا اور اس کو دیکھ نہیں پا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد مَیں نے سر اوپر اٹھا کر ترچھی آنکھ سے دیکھا تو وہ باری باری ہر شخص کو دو سے تین گولیاں مارتا اور آگے بڑھ جاتا۔ اسی لمحہ مَیں بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اٹھ کر اس کی طرف لپکا۔ وہ مجھ سے قریباً 24فٹ کے فاصلہ پر تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ مَیں اُس کے پاس کیسے پہنچا اور کس طرح دبوچ کر اسے نیچے گرادیا اور اوپر بیٹھ گیا۔ اس وقت میرا دایاں ہاتھ جل گیا۔ مَیں نے اس کو گردن سے دبوچ رکھا تھا لیکن اس کے بازو آزاد تھے جن سے اس نے اپنے پیٹ کے اوپر سے کچھ نکالنے کی کوشش کی۔مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ گرنیڈ نکالنا چاہتا ہے۔چنانچہ مَیں نے گردن چھوڑ کر اس کے بازوپکڑ کر اُس کے سر پر مکے مارنے شروع کردئیے۔ جب یقین ہوگیا کہ وہ بے بس ہوگیا ہے تو میرے پکارنے پر چند احباب فوراً آئے اور ہم نے اس کو ٹائی سے باندھ دیا۔ پھر اس کے جسم سے ہتھیار اور دھماکہ خیز بیلٹ اتاری گئی۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے بعد میں میڈیا کو بتایا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ خودکش حملہ آور زندہ پکڑا گیا ہو۔
اسی اثناء میں دوسرا دہشت گرد پہلی منزل پر آگیا جہاں خدام نے ہال کو خالی کرا لیا تھا۔ اس دہشتگرد کو بھی ایک پتلے دبلے نوجوان سمیت چار حوصلہ مند اور دلیر خدام نے پکڑلیا۔ پھر ایمبولینسوں میں زخمی اور شہداء لے جائے جانے لگے تو مَیں اپنے گھر پہنچا، خون آلود کپڑے تبدیل کئے اور طبی امداد کے لئے ہسپتال پہنچ گیا۔
خون کی یہ ہولی قریباً چالیس منٹ تک جاری رہی تھی۔ اس تمام عرصہ میں مَیں نے احباب جماعت کو سراسیمگی کی حالت میں صبر سے زیر لب دعاؤں میں مصروف دیکھا۔زیادہ تر شہادتیں مین ہال میں ہوئیں جن کا میں عینی شاہد ہوں۔جب مجھے اس اندوہناک واقعہ کی یاد آتی ہے تو مجھے اپنی بے بسی پر افسوس اور اس کسمپرسی پر شرمندگی ہوتی ہے کہ مَیں کس قدر مجبور اور لاچار تھا ۔ مجھے یہ دکھ بیان کرنے کے الفاظ نہیں ملتے ۔
اس واقعہ سے چند روز قبل میرے خسر نے خواب دیکھا کہ میرے والد مرحوم (جن کا نام عبداللہ تھا) لوگوں کے ہجوم میں کھڑے ہیں اور اپنی دائیں ٹانگ کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ مجھے ایک گولی لگی ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ خواب میں بھی کسی قسم کی بے چینی اور پریشانی نہیں ہوتی بلکہ بہت سکون محسوس کررہے ہیں۔ جب انہوں نے یہ خواب مجھے سنایا تو مَیں نے یہ خواب اپنے پر چسپاں کیا اور اس اندوہناک واقعہ سے ایک روز قبل مَیں نے اپنی اہلیہ کو بتایا کہ مَیں اپنی اس ماہ کی پوری پنشن غریبوں اور ضرورتمندوں کو دوں گا تاکہ خدا تعالیٰ مجھے اس مصیبت سے بچاتے ہوئے اپنی حفاظت میں رکھے۔
ایک اور خواب میرے بھانجے نے اس واقعہ سے ایک شام قبل دیکھا کہ میرے والد عبداللہ لوگوں کے مجمع میں کالے رنگ کا عوامی سوٹ پہنے کھڑے ہیں۔ پھر اچانک وہ غصے سے دوڑ کر کسی سے کوئی ہتھیار چھین لیتے ہیں۔ اس کے بعد اُن کا رنگ دمکنے لگتا ہے اور بہادری کی چمک ان کے چہرہ سے پھوٹنے لگتی ہے۔
مذکورہ دونوں خوابوں میں مجھے ہی عبداللہ کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔ عبداللہ یعنی … ’’اللہ تعالیٰ کا بندہ‘‘۔ جب وہ ساری باتیں مَیں یاد کرتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ مَیں ہال میں کیوں ٹھہرا رہا، اوپر یا نیچے والے حصہ میں یا کہیں اَور کیوں نہ گیا۔ مجھے اپنے بچاؤ کی سوچ کیوں نہ آئی۔ اس تمام عرصہ میں ایک لمحہ کے لئے بھی مجھے اپنے بیوی بچوں کا خیال آیا اور نہ ہی اپنے آپ کو محفوظ کرنے کا۔ خطبہ جمعہ شروع ہونے سے لے کر تمام واقعات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ جب میرے پاس ہی گرنیڈ پھٹا تو میں نے اپنے آپ کو صرف اس لئے بچایا یا بچانے کی کوشش کی کہ ایسی پوزیشن لوں کہ موقع ملتے ہی اس دہشتگرد پر جوابی حملہ کرسکوں۔ مجھے یقین تھا کہ دہشتگرد کی چلائی ہوئی تین گولیوں سے مَیں محفوظ رہا تو جو کام خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے ذمہ ہے وہ میں ضرور کر گزروں گا۔
(ہفت روزہ لاہور 19؍جون 2010ء)