مسجد ناصر ہارٹلے پول(برطانیہ) کا افتتاح
یہ مسجد اس علاقہ میں امن ، رواداری ،باہمی افہام وتفہیم اور روشنی کے مینار کی علامت بنے گی۔
امن کے قیام اور محبت کے فروغ کے لئے ہمارے دلوں سے صرف محبت اور پیارہی پھوٹے گا۔
مسجد ناصر ہارٹلے پول(برطانیہ) کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب ۔
مختلف سیاسی وسماجی شخصیات کامسجد کی تعمیر پر نیک تمناؤں اور مسرت کا اظہار۔ مختلف چیریٹیز میں امدادی رقوم کی تقسیم۔
(مسجد ناصر ہارٹلے پول کی تعمیر اورافتتاح سے متعلق قدرے تفصیلی رپورٹ)
(رپورٹ مرتبہ: فرخ سلطان۔ لندن)
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن 6 جنوری 2006ء)
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 11؍نومبر 2005ء کو برطانیہ کے شہر ہارٹلے پول میں مسجد ناصر کا افتتاح فرمایا۔ حضور نے اُس روز مسجد ناصر میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور جمعہ اور عصر کی نمازیں پڑھائیں۔ اگرچہ مسجد اور اس سے ملحقہ عمارت کافی وسیع تھی لیکن اس موقع پر برطانیہ بھر سے آنے والے کئی سو افراد اس میں سما نہیں سکے اور بہت سے افراد کو شدید سردی میں مسجد کے احاطہ میں لگائی گئی مارکی میں نماز ادا کرنی پڑی۔ نماز کے بعد مسجد کے افتتاح کی خوشی میں احباب میں مٹھائی کے ڈبے تقسیم کئے گئے جو اس مقصد کے لئے خاص طور پر تیار کروائے گئے تھے۔ اُسی روز شام کو نماز مغرب و عشاء کے بعد مسجد کی تعمیر میں حصہ لینے والوں نے حضور انور کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کارکنان میں تحائف بھی تقسیم فرمائے۔ جس کے بعد مسجد کے احاطہ میں نصب کی گئی مارکی میں ایک پُروقار تقریب کا انعقاد ہوا جس میں اراکین پارلیمنٹ، کونسلرز اور زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ایک سو سے زائد مہمانوں نے شرکت کی۔ اس تقریب میں مجلس انصاراللہ کی طرف سے چند خیراتی اداروں میں رقوم تقسیم کی گئیں اور اُن اداروں کے نمائندگان کے علاوہ رُکن پارلیمنٹ، رُکن یورپین پارلیمنٹ اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی خطاب فرمایا۔ دعا کے ساتھ یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی جس کے بعد حاضرین کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔
مسجد کا افتتاح کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ میں تشھد،تعوذ اور سورۃالفاتحہ کے بعد سورۃ الاعراف کی آیات 27 و 32 کی تلاوت فرمائی۔ پھر حضور انور نے فرمایا کہ
’’الحمدللہ آج ہمیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ ہم ملک کے اِس حصے میں بھی مسجد تعمیر کرنے کے قابل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کی قربانی کو قبول فرمائے اور جس مقصد کے لئے یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے یہاں کا رہنے والا ہر احمدی اس مقصد کو پورا کرنے والا ہو۔ اس مسجد کی تعمیرکے لئے مَیں نے انصاراللہ UK کی ذمہ داری لگائی تھی کہ وہ اس کا تمام خرچ ادا کریں یا اکثر حصہ ادا کریں۔ الحمدللہ کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور بڑے کھلے دل کے ساتھ اس قربانی میں حصہ لیا اور اس طرح یہ مسجد کم و بیش ان کی قربانی سے ہی تعمیر ہو گئی۔ جو وعدے انہوں نے کئے تھے وہ بھی 75فیصد ادا ہو چکے ہیں، امید ہے بقایا بھی جلد ہی ادا کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں مالی قربانی کی صورت میں یا اَورکسی بھی رنگ میں حصہ لیا۔ بہت سا کام والنٹیئرز (Volunteers) نے وقار عمل کی صورت میں کیا۔ دیکھنے والوں کو بظاہر یہ کام ناممکن نظر آتا تھا کہ آج اس تاریخ کو مسجد کا افتتاح ہو سکے گا۔ لیکن ان والنٹیئرز نے اس طرح رات دن کرکے کام کیا ہے کہ اس ناممکن کو آج ممکن بنا دیا ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی قربانیوں کے نمونے ہیں جو آج جماعت احمدیہ کے علاوہ ہمیں کہیں نظر نہیں آتے۔ جب ایک دفعہ کام میں لگ جائیں، ارادہ کر لیں کہ کرنا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعائیں کرتے ہوئے اس کام میں جُت جاتے ہیں اور جنونیوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ نہ رات کا ہوش رہتا ہے نہ دن کا ہوش رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا دے، ان کی پریشانیوں اور مشکلوں اور مسائل کو دور فرمائے۔‘‘
حضور انور نے مسجد کی تعمیر کے بعد احمدیوں کو اُن کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ’’اب یہ مسجد تو بن گئی لیکن ہماری ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ ہماری مساجد صرف اس لئے نہیں بنائی جاتیں کہ ایک خوبصورت عمارت ہم بنا دیں اور دوسرے بھی دیکھ کر خوش ہوں کہ دیکھو کتنی اچھی خوبصورت مسجد بنائی ہے اور ہم بھی اس کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں۔ یہ مساجد تو نشان ہیںاس بات کا کہ اللہ والوں کی جماعت جن کے دل اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہتے ہیں ایک خدا کی عبادت کرنے کے لئے، اللہ کے نام پر، اللہ کا گھر تعمیر کرتے ہیں ۔دنیا کا کوئی بھی لالچ، دنیا کی کوئی بھی مصروفیت انہیں خدا کی عبادت سے غافل کرنے والی نہیں ہوتی۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا صحیح فہم اور ادراک رکھتے ہیں کہ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) یعنی مَیں نے جنّ اور انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں اور مجھے پہچانیں ۔‘‘
حضور انور نے مزید فرمایا کہ ’’ہم جب مسجد بناتے ہیں تو کسی دکھاوے یا مقابلے کے لئے نہیںبناتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے لئے، اس کی عبادت کے لئے بناتے ہیں۔ اور یہی سوچ ہے جس کے تحت ہر احمدی کو مسجد میںنمازوں کے لئے آنا چاہئے، یہاںکے رہنے والے احمدیوں میں سے بعض تو ایسے ہیں جو کام پر جاتے ہیں، بعض نمازوں کے اوقات مثلاً ظہر، عصر یا بعض حالات میں مغرب پر مسجد میں حاضر نہیںہو سکتے وہ تو اپنے کام کی جگہ پر پڑھ لیں۔لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو کسی کام کے بغیر ہیں، اسائلم کے فیصلے کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں یا ویسے ہی کام سے فارغ ہو چکے ہیں ان کو پانچوں وقت مسجد میں آنا چاہئے۔ اب یہ مسجد پانچ وقت نمازوں کے لئے کھلنی چاہئے اور جو پہلی قسم مَیں نے کام کرنے والوںکی بیان کی ہے ان کو بھی فجر، مغر ب اور عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں آنا چاہئے۔ ہر مرد پر یہ فرض ہے بلکہ جو بچے دس سال کی عمر کو پہنچ گئے ہیں ان پر بھی فرض ہے ۔ ایک احمدی جس کا یہ دعویٰ ہے کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا اور آپ کو مان کر اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کیا ہے اس کی شان کے خلاف ہے کہ دنیا کی مصروفیتیں یا کام یا اَور اس قسم کے بہانے اسے نماز کے لئے مسجد میں آنے سے روکیں ۔ احمدی کی شان یہی ہے کہ ہر دنیاوی مجبوری کو پس پشت ڈال دے، پیچھے پھینک دے۔ دنیا کا کوئی لالچ، دنیا کی کوئی دلچسپی اس کی باجماعت نمازوںمیں روک نہ بنے۔ ورنہ یہ قربانیاں بھی بے فائدہ ہیں جو آپ نے مسجد کی تعمیر کے لئے کی ہیں اور یہ عمارت بھی بے فائدہ ہے جو تقویٰ سے پُر دلوں کی بجائے وقتی جوش رکھنے والے دلوں نے بنائی ہے۔ اللہ کرے کہ آپ میں سے ہر ایک اپنے اس مقصد پیدائش کو سمجھتے ہوئے اپنے دل کو تقویٰ سے سجاتے ہوئے مسجد کو آباد کرنے والا ہو۔‘‘
اس کے بعد حضور انور نے نماز کی ادائیگی کے حوالہ سے قرآن کریم، احادیث اور حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات بیان فرمائے اور احمدیوں کو اپنی عبادات کے معیار بہتر بنانے کی طرف توجہ دلائی۔ خطبہ جمعہ کے اختتام سے قبل حضور انور نے دعا کرتے ہوئے فرمایا کہ : ’’اللہ کرے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق عبادتیں کرنے والے بھی ہوں جس طرح آپؑ جماعت کو بنانا چاہتے تھے۔ اور مشرق و مغرب میںمسجدوں کا جال پھیلانے والے بھی ہوں۔ اور پھر ان مسجدوں کو تقویٰ سے پُر دلوں سے بھرنے والے بھی ہوں۔ انشاء اللہ تعالیٰ مساجد کی تعمیر سے بہت سے تبلیغی راستے کھلیں گے اور اللہ کے فضل سے کھلتے بھی ہیں ۔ لیکن اس کے لئے ہمیں بھی توبہ و استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے معیار قائم کرنے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔‘‘
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں ہارٹلے پول میں جماعت کو قائم کرنے کے لئے انتھک محنت اور خدمت کرنے والے دو مخلصین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’آج اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر یہاں کے پرانے احمدیوں کو یقینا ان دو مخلصین کی یاد بھی آ رہی ہو گی جو یہاں کے ابتدائی احمدیوں میں سے ہیں جنہوں نے یہاں جماعت قائم کی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اپنے بچوں کے بڑے ہونے کی وجہ سے وہ یہاں سے شفٹ ہونا چاہتے تھے، شاید پاکستان جانا چاہتے تھے۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر کہ پہلے یہاں جماعت بنائیں اور پھر جائیں۔ ایک مشنری روح کے ساتھ انہوں نے یہاں کام کیا اور جماعت بنائی، تبلیغ کی، مقامی لوگوں میں بھی احمدیت پھیلی۔ اور پھر اس جماعت کی تربیت اور ان مقامی لوگوں کے پیار کی وجہ سے اور تبلیغ کا جو مزا اُن کو آ چکا تھا اس وجہ سے وہ واپس جانے کا خیال ہی بھول گئے اور یہیں کے ہو گئے۔ اور پھر ان دونوں کی یہیں وفات بھی ہوئی اور یہیں دفن بھی ہیں۔ آج ڈاکٹر حمید خان صاحب اور ساجدہ حمید صاحبہ کی روح بھی اس مسجد کی تعمیر کا ثواب حاصل کر رہی ہو گی۔ ان کو بھی یہ ثواب مل رہا ہو گا جن کی کوششوں سے یہ رقبہ خریدا گیا اور جن کی خواہش پر اللہ کے فضل سے یہ مسجد بن بھی گئی ہے۔ ان دونوں فدائین کے لئے دعا کریںاللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی احمدیت کا حقیقی خادم بنائے۔ ان کے چاروں بچوں میںسے بڑی بیٹی یہاں رہتی ہیں۔ ماشاء اللہ، اللہ کے فضل سے اپنے ماں باپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے کام میں اور ان کے علم میں مزید برکت ڈالے۔ امید ہے کہ چھوٹا بیٹا جو تعلیم کے لئے لندن مقیم ہے وہ بھی یہاں آ کے رہے گا تاکہ اس کام کو جاری رکھے جو اس کے ماں باپ نے جاری کیا۔ بہرحال جب بھی ہارٹلے پول کی تاریخ احمدیت لکھی جائے گی،یہاں کی جماعت کی تاریخ لکھی جائے گی اس جوڑے کا نام سب سے نمایاں ہو گا جنہوں نے یہاں جماعت قائم کی۔ اب تو اللہ کے فضل سے یہاں کافی لوگ ہیں۔ کچھ اسائلم والے بھی آ گئے، دوسرے بھی آ گئے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے کہ اس جوڑے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، تبلیغ کے میدان میں بھی آگے بڑھیں اور جماعت میں اضافے کا باعث بنیں اور اس مسجد کے اصل مقصد کو پورا کرنے والے بھی ہوں‘‘۔
ہارٹلے پول میں جماعت احمدیہ کا قیام
ہارٹلے پول، انگلستان کے شمال مشرقی سمندر کا ایک ساحلی شہر ہے جو دراصل دو چھوٹے قصبوں کے ادغام کا نتیجہ ہے۔ یہ قصبے ’’ہارٹلے پول ‘‘ ( ہیڈ لینڈ) اور ’’ مغربی ہارٹلے پول ‘‘ تھے۔ پہلا قصبہ ہارٹلے پول 647ء عیسوی میں میں عیسائی پادریوں نے آبادکیا تھا جبکہ دوسرے قصبے’’ مغربی ہارٹلے پول ‘‘ کی بنیاد 1840ء بتائی جاتی ہے۔ بعض سیاسی اور جغرافیائی ضروریات کے پیشِ نظر اُن دونوں قصبہ جات کو ملا دیا گیا اور 1967ء میں صرف ’’ہارٹلے پول‘‘ رہ گیا۔
محترم ڈاکٹر حمید احمد صاحب اپنی اہلیہ محترمہ ساجدہ حمید صاحبہ (ایم اے انگریزی) کے ہمراہ 1971ء میں ہارٹلے پول میں مقیم ہوئے۔ محترم ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے جسمانی شفا کے ساتھ ساتھ روحانی شفا بھی رکھ دی تھی اور آپ کی اہلیہ بھی دعوت الی اللہ کا جنون رکھتی تھیں۔ چنانچہ آہستہ آہستہ ان دونوں کے حسن عمل نے اپنا اثر دکھایا اور بہت سی سعید روحیں تثلیث کو خیرباد کہہ کر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں آگئیں اور کئی سال کی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں ہارٹلے پول میں احمدیہ جماعت کا قیام عمل میں آیا اور پھر جلد ہی ہارٹلے پول انگلستان کا وہ پہلا شہر بن گیا جہاں مقامی احمدیوں کی تعداد باہر سے آ کر آباد ہو نے والوں سے تجاوز کر گئی۔ 1978ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی یہاں قدم رنجہ فرمایا۔ خلافت ثالثہ میں ہی یہاں سب سے پہلے قبول احمدیت کی سعادت ایک خاتون نے حاصل کی۔ یہ ’’ مس پام ایلڈر ‘‘ تھیں جنہوں نے 1981ء میں حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خانصاحب کی ہارٹلے پول آمد کے موقع پر بیعت کرنے کی توفیق پائی۔ 1984ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ہجرت کرکے انگلستان تشریف لائے تو پھر کئی بار ہارٹلے پول تشریف لے گئے۔ 1994ء میں محترمہ ساجدہ حمید صاحبہ کی وفات ہوگئی۔
مسجد ناصر کی تعمیر
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اکتوبر 2004ء میں ہارٹلے پول تشریف لے گئے اور وہاں ’’مسجد ناصر‘ ‘ کا سنگِ بنیاد رکھا۔ بعد ازاں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کی تعمیر کی ذمہ داری مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سپرد فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجلس انصاراللہ نے حضور انور کی خواہشات کے مطابق اس ذمہ داری کو نہایت احسن رنگ میں سرانجام دینے کی توفیق پائی اور حقیقت میں ’’نحن انصاراللہ‘‘ ہونے کا حق ادا کردیا۔ فجزاھم اللّہ احسن الجزاء
اس مسجد کی مختصر تاریخ کچھ یوں ہے کہ 1998ء کے وسط میں محترم ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب نے ہارٹلے پول کی جماعت کو مسجد کی صورت میں ایک مستقل مرکز فراہم کرنے کے بارہ میں سوچا اور پھر محتاط انداز میں مقامی کونسل سے ایسے مناسب قطعہ اراضی کی دستیابی کے متعلق پو چھا جس پر علاقہ کی سب سے پہلی مسجد کی تعمیر کی اجازت مل سکے۔ اسی سال ہارٹلے پول کونسل کی جانب سے منعقدہ ایک غیررسمی اجلاس کے دوران آپ کی ملاقات ہارٹلے پول کے چیف ایگزیکٹو مسٹر ڈنسڈیل (Mr. Dinsdale) سے ہوئی اور آپ نے ان سے بھی مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں جگہ کی دستیابی کی بات کی۔ 10؍اگست کو مسٹر ڈنسڈیل نے محترم ڈاکٹر صاحب کو تحریری طور پر پندرہ جگہوں کی نشاندہی کی جہاں مسجد تعمیر کی جاسکتی تھی۔ ان میں سے دو کونسل کی اور باقی ذاتی ملکیت تھیں۔ لیکن یہ سب جگہیں کسی نہ کسی وجہ سے ناموزوں تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کا مسٹر ڈنسڈیل سے مسلسل رابطہ رہا۔ لیکن اسی دوران حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ نے ایک خطبہ جمعہ میں مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں جب اپنی خواہش کا اظہار کیا تو ہارٹلے پول کی جماعت کے ہر فرد کے اندر مسجد کی تعمیر کا شوق پہلے سے بڑھ کر فروزاں ہوگیا۔
10؍اگست 1999ء کو ہارٹلے پول کونسل کے اسٹیٹ مینیجر نے ڈاکٹر حمید صاحب کو ایک خط میں مزید چار مقامات کا بتایا جو اس سلسلے میں موزوںتھے اور زیادہ اہم بات یہ تھی کہ یہ سب جگہیں کونسل کی ملکیت تھیں۔ جماعت کے کچھ دیگر ممبران سے مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہTurnbull Street اور Brougham Terrace کے Junction پر واقع مقام اس سلسلہ میں موزوں ترین ہے۔یہ جگہ.021 0ایکڑ اور0.7ایکڑ کے دو ٹکڑوں پر مشتمل تھی۔ کونسل کو اس بارہ میں بتادیا گیا اور اسٹیٹ مینیجر کے کہنے پر 9؍فروری 2000ء کو محترم ڈاکٹر صاحب نے پراپرٹی سروس ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی ملاقات مسٹر جوائس (Mr. Joyce) سے ہوئی جنہوں نے 0.7 ایکڑ والے زمین کے ٹکڑے کی قیمت ساٹھ ہزار پاؤنڈ بتائی۔ اس ملاقات کے صرف ایک ہفتہ بعد محترم ڈاکٹر صاحب وفات پاگئے اور نواحمدی انگریز محترم بلال ایٹکنسن صاحب کو صدر جماعت مقرر کیا گیا جنہوں نے محترم ڈاکٹر صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسجد کے لئے زمین کے حصول کا کام سرگرمی سے جاری رکھا۔
محترم بلال ایٹکنسن صاحب (ریجنل امیر) نے مسجد کی زمین کی خرید کی پیش رفت کے حوالہ سے بتایا کہ 14؍مارچ 2000ء کو مَیں نے اسٹیٹ مینیجر سے رابطہ کرکے اُسے ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بارے میں بتایا اور درخواست کی کہ مجوزہ زمین کے بارہ میں بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔دو ہفتے بعد اسٹیٹ مینیجر نے مجھے اطلاع دی کہ کونسل کے Resources Board نے اس زمین کو ہمیں بیچنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ 12؍اپریل 2000ء کو مَیں نے اس سلسلہ میں لندن جاکر محترم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب امیر یوکے اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے ملاقات کی۔ حضورؒ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے مجھے ڈاکٹر حمید صاحب کے اس نیک مقصد کو جاری رکھنے کو کہا۔ چنانچہ 18؍اپریل کو مَیں نے مسٹر جوائس سے بات کی اور پوچھا کہ کیا رقم میں کوئی گنجائش نکل سکتی ہے۔ کیونکہ میں تجربہ سے جانتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب بغیر کسی بھاؤ تاؤ کے اس قیمت پر متفق نہ ہوتے۔ بھاؤ تاؤ کا یہ طریقہ میرے لئے بہت عجیب ہے لیکن ایشیائی اور مشرقی ممالک میں بہت مقبول ہے۔ مسٹر جوائس نے مجھے کہا کہ میں انہیں زمین کی قیمت پر نظرِ ثانی کے لئے ایک تحریری درخواست دوں جسے وہ کونسل میں پیش کریں گے۔ چنانچہ یہ درخواست لکھی گئی جو 20؍جون کو ریسورسز بورڈ میں پیش ہوئی۔
اسی دوران میں نے مزید رہنمائی اور دعا کے لئے حضورؒ کی خدمت میں ایک خط ارسال کیا جس کے جواب میں حضورؒ نے تحریر فرمایا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ہم نے اس سلسلہ میں زمین خرید بھی لی ہے۔ میں نے سمجھا کہ حضورؒ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے لیکن بعد میں مجھے احساس ہوا کہ یہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ چنانچہ جلد ہی مسٹر جوائس نے مجھے بتایا کہ کونسل یہ زمین ارزاں قیمت پر فروخت کے لئے رضامند ہوگئی ہے اور وہ خود بھاؤ تاؤ کرنے کے مجاز ہیں۔ یہ میرے لئے بہت عجیب بات تھی کہ مجھے فون پر بولی لگانی پڑتی تھی۔ میں نے زمین کے مفت حصول سے بات چیت شروع کی یہانتک کہ ہم 35,000£ کے دوستانہ سودے پر راضی ہوگئے۔مسٹر جوائس نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس رقم میں0.21 اور0.7 ایکڑ کی دونوں جگہیں شامل ہوں گی جس سے زمین کا کل رقبہ1 ایکڑ ہو جائے گا۔ یہ 18؍اگست 2000ء کی تاریخ کی بات ہے۔ 27؍اگست کو مَیں نے امیر صاحب کی منظوری سے کونسل کو اُن کی پیشکش کی منظوری کی اطلاع دیدی۔
اگلا مرحلہ زمین کی قیمت جمع کرنے کا تھا۔ 35,000£ کی رقم بہت بڑی ہے اور یہ صرف زمین کی قیمت تھی۔ میں جانتا تھا کہ زمین کی قیمت کی ادائیگی کے لئے جماعت کے ہر مردوزن اور بچوں کوبڑی قربانی دینا ہوگی۔ میں حیران تھا کہ یہ سب کیسے ہوگا۔ دنیاوی نقطہ نگاہ سے یہ ناممکن نظر آتا تھا۔ اس وقت ہارٹلے پول کی جماعت بہت چھوٹی تھی اور صرف تین یا چار افراد کل وقتی ملازمت میں تھے۔ میں اس وقت جماعت کے نظم و نسق کے نظام سے بھی نا آشنا تھا اور میرا خیال تھا کہ مجھے اور دیگر ممبران کو مستقبل میں مسجد کی تعمیر کے بعد گیس، بجلی اور ٹیلی فون سمیت تمام بل ادا کرنا پڑیں گے۔ 3؍ستمبر 2000ء کو ایک اجلاس عام میں مَیں نے جماعت سے وعدہ جات پیش کرنے کے لئے کہا اور ہر گھر میں ایک فارم بھیج دیا۔ لیکن میرے ایمان کی کمی کی وجہ سے مجھے ابھی تک یقین نہیں تھا کہ یہ رقم کیسے اکٹھی ہوگی۔ تاہم اگلی صبح ملنے والی ڈاک نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ اس میں ہماری جماعت میں شامل ہونے والے ایک نہایت مخلص جوڑے کی طرف سے 20,000£ کا وعدہ موصول ہوا تھا۔ اس کے بعد سے مجھے یقین ہو گیا کہ رحمن خدا ہمیشہ ہمارا مددگار رہے گا اور یہ کہ مجھے ہمیشہ مدد کے لئے صرف اور صرف اس سے مانگنا چاہئے۔
اسی سال اکتوبر میں مسجد کا ڈیزائن اور مبلغ کی رہائشگاہ کا منصوبہ بنانے کے لئے ہم نے بریڈ فورڈکے ایک انگریز آرکیٹیکٹ مسٹر ڈین وڈوارڈ (Mr. Dean Woodward) کی خدمات حاصل کرلیں۔ جنوری 2001ء میں ہم نے مسجد کے منصوبہ کا خاکہ کونسل میں پیش کیا جو کہ مقامی سطح پر مخالفت کے باوجود اپریل میں منظور ہوگیا۔ دسمبر میں عمارت کا حتمی ڈیزائن کونسل میں منظوری کے لئے دیا گیا جو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگست 2002ء میں منظور ہوگیا۔ اس کے بعد جگہ کی خرید کے لئے ہارٹلے پول کونسل سے بات چیت جاری رہی اور آخر کار 8؍اگست 2003ء کو زمین کی ملکیت جماعت کے نام کردی گئی۔ زمین کی Land Registry Report میں ایک دلچسپ بات یہ دیکھنے میں آئی کہ 1899ء میں ایک وصیت میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس زمین پر کوئی عوامی رہائشگاہ تعمیر نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی مہلک اثر شے بیچی جائے گی۔
نومبر 2003ء میں مرکز نے عمارت کی تعمیر کا اندازہ ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ لگایا اور مجھے لکھا کہ تعمیر کا آغاز تب کیا جائے گا جب ہارٹلے پول جماعت 75 ہزار پاؤنڈ اکٹھا کرلے گی۔ جون 2004ء تک ہماری جماعت نے 77 ہزار پاؤنڈ سے زائد رقم جمع کرلی۔ چنانچہ محترم امیر صاحب کی یہ درخواست حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منظور فرمالی کہ حضور بریڈ فورڈ اور ہارٹلے پول کی مساجد کی بنیادی اینٹیں رکھنے کے لئے خود تشریف لائیں۔ اس طرح 3؍ اکتوبر 2004ء بروز اتوار حضور انور نے ہارٹلے پول میں مسجد کا سنگ بنیاد قادیان سے لائی جانے والی اُس اینٹ کے ساتھ رکھا جو محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے مکرم ہاشم اکبر صاحب کو دی تھی۔ اس موقع پر حضور انور نے مسجد کے ساتھ مبلغ اور خادم مسجد کی رہائشگاہ کی تعمیر کی بھی ہدایت فرمادی۔ میرے لئے یہ بہت بڑا روحانی تجربہ تھا کیونکہ ایک بار پھر خدا کا منصوبہ ہمارے منصوبوں سے کہیں بڑھ کر معلوم ہورہا تھا۔ دو ہفتہ بعد ہی حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ میں گزشتہ وعدہ جات اور صدر انصار اللہ کے وعدہ کا ذکر کیا اور مجلس انصار اللہ کے ممبران کو ہارٹلے پول مسجد کے سلسلہ میں اپنے وعدہ جات پورا کرنے کو کہا۔ مسجد کا نام پہلے ہی مسجد ناصر رکھا گیا تھا۔ اب مسجد کا منصوبہ مناسب تبدیلی کے بعد ایک بار پھر کونسل میں منظوری کے لئے پیش کیا گیا، جو کہ منظور کر لیا گیا۔
حضور ایدہ اللہ نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ مسجد کی عمارت علاقہ کی سب عمارتوں سے ممتاز ہو۔چنانچہ لندن سے باہر یہ پہلی مکمل تعمیر شدہ احمدیہ مسجد حضور انور کی خواہش کے مطابق تعمیر کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مسجد کی تعمیر کے لئے کسی بھی پہلو سے قربانی کرنے والوں کی اجر عظیم عطا فرمائے اور اپنی محبت اُن کے دلوں میں پیدا فرمادے۔
تقریب عشائیہ۔ خیراتی اداروں میں رقوم کی تقسیم ۔
اور مسجد کی تعمیر پر مقامی انتظامیہ کی طرف سے نیک تمنائوں کا اظہار
مسجد کے افتتاح کے سلسلہ میں ایک پُروقار تقریب 11؍نومبر 2005ء کی شام مسجد ناصر ہارٹلے پول کے احاطہ میں نصب کی جانے والی مارکی میں منعقد ہوئی۔ تقریب کا آغاز حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تشریف آوری کے بعد تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم نسیم احمد باجوہ صاحب مبلغ سلسلہ نے کی۔ مکرم مبارک احمد صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے پاکیزہ منظوم کلام سے چند اشعار پیش کئے۔ جس کے بعد محترم بلال ایٹکنسن صاحب ریجنل امیر نارتھ ایسٹ نے احمدیت کا تعارف نہایت احسن رنگ میں پیش کیا اور جماعت احمدیہ کی خلق اللہ سے ہمدردی کی بہت سی مثالیں بیان کیں۔ آپ نے محترم ڈاکٹر حمید احمد خانصاحب اور اُن کی اہلیہ محترمہ ساجدہ حمید صاحبہ کی خدمات کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ میرے قبول اسلام کی وجہ بھی اِس جوڑے کا حسن اخلاق اور نیک سیرت کا نمونہ بنا ہے۔
اس کے بعد مکرم منیر احمد صاحب مینیجر چیریٹی واک 2005ء انصاراللہ یوکے نے 12؍جون کو ہارٹلے پول میں منعقد ہونے والی چیریٹی واک کی مختصر رپورٹ پیش کی۔ جس کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مختلف خیراتی اداروں میں قریباً پچیس ہزار پاؤنڈز کے چیک تقسیم فرمائے۔ جن خیراتی اداروں میں رقم تقسیم کی گئی اُن میں ہارٹلے پول میئرز چیریٹی، District hospice، Buddawick چلڈرن ہسپتال، Save the Children، Brom پرائمری سکول، کینسر ریسرچ یوکے اور ہیومینیٹی فرسٹ شامل ہیں۔ اس کے بعد ان اداروں سے تعلق رکھنے والے منتظمین نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے رقوم کی فراہمی پر شکریہ ادا کیا اور اپنے اداروں کی کارکردگی پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی۔
ہارٹلے پول بارو کونسل کے چیئرمین Mr. Carl Richardson نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ اس عمارت کے منفرد ڈیزائن سے بہت متأثر ہوئے ہیں اور اسی طرح مختلف خیراتی اداروں میں فراخدلی سے رقوم کی تقسیم سے بھی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مسجد اپنے ماحول اور یہاں عبادت کے لئے آنے والوں کے لئے بہت فائدہ کا موجب بنے گی۔ نیز اس تقریب میں موجود بے شمار افراد جن کا تعلق مختلف ثقافتوں اور مذاہب سے ہے اور یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ مسجد کا استعمال بہترین طور پر کیا جائے گا اور یہ معاشرہ میں اتحاد پیدا کرنے کا باعث بنے گی جس کی بڑی ضرورت ہے۔
ایک اَور خیراتی ادارہ District hospice کی منتظمVolnye Hammying نے امید ظاہر کی کہ یہ مسجد معاشرہ میں امن اور رواداری کی علامت بنے گی۔ Buddawick Children Hospice کے Mr. Bill Fox نے بھی خیراتی رقم پر شکریہ ادا کرتے ہوئے مسجد کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ مقامی Save the Children کی چیئرمین Vivian Donally نے بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے ایشیا میں حال ہی میں آنے والے زلزلہ کے لئے ایک ہزار پاؤنڈ بھجوایا ہے اور جو ساڑھے تین ہزار پاؤنڈ کی رقم آپ نے پیش کی ہے، وہی بھی ہم زلزلہ زدگان کے لئے بھجوائیں گے۔ Brom Primary School کے ہیڈماسٹر نے اپنی تقریر میں عطیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ عرصہ سے وہ مسجد کی انتظامیہ سے رابطہ رکھے ہوئے ہیں اور ان کے اخلاص کی حدّت اور دوستانہ رویے سے بے حد متأثر ہیں چنانچہ یہ تعلقات مستقبل میں مزید مضبوط ہوتے چلے جائیں گے۔ کینسر ریسرچ یوکے کی Lindsey Kate نے بھی گرانقدر عطیہ ملنے پر بہت شکریہ ادا کیا۔ ہیومینیٹی فرسٹ کی جانب سے محترم سید منصور شاہ صاحب قائمقام چیئرمین نے ادارہ کی دنیا کے مختلف خطوں میں کارگزاری پر اختصار سے روشنی ڈالی۔
اس کے بعد محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر یوکے نے خطاب کیا۔ آپ نے معاشرہ میں مذہبی لگاؤ میں کمی اور اُس کے نتیجہ میں اخلاقی اقدار میں کمزوری کا ذکر کیا اور امید ظاہر کی کہ اس مسجد کی تعمیر سے معاشرہ پر ہر پہلو سے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ آپ نے دنیا بھر میں جماعت کی خدمت خلق کی سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈالی۔
رکن پارلیمینٹ Mr. Ian Wright نے تقریر میں مسجد کے ڈیزائن کی تعریف کرتے ہوئے اسے مقامی تعمیرات میں ایک عمدہ اضافہ قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جون میں ہونے والی چیریٹی واک میں بھی نوسو شرکاء کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ انہوں نے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ لندن سے باہر تعمیر کی جانے والی یہ پہلی احمدیہ مسجد ہے جو ہارٹلے پول میں بنائی گئی ہے۔ اور یہ بھی حسین اتفاق ہے کہ بارہ سو سال قبل ہارٹلے پول میں ہی عیسائیت کی برطانیہ میں تبلیغی سرگرمیوں کو وسعت دینے کے لئے St. Tilda نے عیسائی مذہبی بستی قائم کی تھی۔ انہوں نے جماعت کے ماٹو ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ کو بھی سراہا۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حاضرین سے خطاب فرمایا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالی کا خطاب
حضور انور نے فرمایا کہ جب ہم السلام علیکم کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ کی طرف سے تمہیں امن اور رحمت نصیب ہو۔ حضور انور نے فرمایا کہ آج ہم مسجد ناصر کے افتتاح کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں جو اِس علاقہ میں اور اس قصبہ میں پہلی احمدیہ مسجد ہے۔ وہ لوگ جو احمدیہ مسلم جماعت اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے متعارف نہیں ہیں لیکن چند مقررین کی تقاریر سن چکے ہیں خصوصاً مقامی ممبر آف پارلیمینٹ کی تو مَیں کہہ سکتا ہوں کہ کم از آپ کے راہنما احمدیت سے آگاہ ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو حقیقت نہیں جانتے، اُن کے دلوں میں اس مسجد کی تعمیر سے بعض خدشات جنم لے سکتے ہیں کہ شاید اس کی وجہ سے علاقہ کا امن اور رواداری کا ماحول تباہ ہوجائے۔ غیرمسلم ذہنوں میں اُٹھنے والے اس سوال کی دو وجوہات ہیں(باوجود اس کے کہ ایسی تعلیم سے وہ لاعلم ہیں جو ناشائستہ ہے یا دہشت گردی کو فروغ دینے والی ہے)، ایک اسلام کے خلاف ایسا متعصب پراپیگنڈہ ہے جو انصاف کے تقاضوں کے صریحاً منافی ہے۔ اور دوسرے بعض نام نہاد مسلمانوں کے افعال ہیں۔
اس لئے ہمیں اسلام کے حسن کو اس کی کتابِ شریعت (قرآن کریم) کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کے متعلق ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ یہ آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھی۔ اس مختصر وقت میں مَیں کسی تفصیل میں تو نہیں جاسکتا لیکن چند امور کی وضاحت ضرور کروں گا جسے سمجھنے کے لئے مَیں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے ذہنوں سے اُن خیالات کو نکال باہر کریں جن کے مطابق اسلام کسی بھی قسم کے تشدد کو فروغ دیتا ہے یا دوسروں کے حقوق پامال کرنے کی تعلیم دیتا ہے یا ظلم، دہشت گردی، لاقانونیت میں اضافہ کرتا ہے یا کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دیتا ہے۔ بلکہ اسلام کی تعلیم تو محبت، شفقت، دوسروں کے جذبات کے احترام، مساوات اور انصاف کی بنیاد پر دوسروں سے ہمدردانہ سلوک اور ہمہ وقت قانون کی اطاعت کرتے چلے جانے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یقینا اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حُکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو۔ (سورۃالنحل:91)
پس دیکھئے کہ یہ کس قدر خوبصورت تعلیم ہے جو ہر شخص سے توقع رکھتی ہے کہ وہ صاف دل کے ساتھ دوسروں سے معاملہ کرے اور کسی کے ساتھ بھی ظالمانہ یا غیرمشفقانہ رویّہ نہ رکھے بلکہ اپنی اس حالت سے مزید ترقی کرتے ہوئے اپنے حقوق کو دوسروں کی خاطر قربان کرے۔ دوسروں کے ساتھ مساویانہ اور اچھا سلوک کرے جیسا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ روا رکھتا ہے، اپنی اولاد یا والدین کے ساتھ اور اُن کی کمزوریوں سے صرف نظر کرتا ہے۔ اگر کوئی اس طرح عمل کرے تو اختلافات، جھگڑے اور باہمی شکایات کی بنیادیں ختم ہوجائیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ اسلام ایسے امور سے منع کرتا ہے جو اخلاق کو نقصان پہنچائیں جیسے فحاشی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے دُور لے جانے والی چیز ہے۔ معاشرتی اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے والے کاموں سے بچنا چاہئے۔ اگر آپ کسی کے حقوق غصب کریں گے یا کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے تو معاشرتی رواداری کو برباد کردیں گے۔ جھگڑے اور چپقلشیں جنم لینے لگیں گی۔ اس لئے ان برائیوں سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ نیز ایسے امور سے بھی دُور رہیں جن کے نتیجہ میں باغیانہ روش پیدا ہو۔ ایسے اتحاد نہ بنائیں جو حکومت کے مدّمقابل آنا چاہیں۔ ایسے کام نہ کریں جن سے قانون ٹوٹ جائے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہوں، ملکی قوانین کا احترام کریں۔ اپنے ہاتھ میں قانون لینے کی کوشش نہ کریں۔ جماعت احمدیہ کے بانی نے یہ اصول ہمارے سامنے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ تُو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل پر نیکی کرے اور اس کے آزار (تکلیف) کے عوض میں اسے راحت پہنچاوے اور مروّت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے۔
پس یہ اسلامی تعلیم ہے جس پر جماعت احمدیہ قائم ہے۔ اور یہ تعلیم اپنے ہم وطن کے بارہ میں ہی نہیں ہے کہ اُس سے اپنے رشتہ داروں جیسا سلوک کرو بلکہ قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ۔ اور اگر تم کسی قوم کے ساتھ لڑائی میں بھی مصروف ہو تو بھی کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ اگر تم اُن پر غلبہ پالوتو مغلوب دشمن کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ نہ کرو۔ فاتح ہوکر مفتوح کے حقوق سلب نہ کرو۔ اگر تمہارا کوئی فرد مغلوب دشمن کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرے تو اپنے آدمی کی تائید کرنے کی بجائے انصاف کے ساتھ سچائی کا ساتھ دو۔
اس تعلیم کی روشنی میں مجھے یقین ہے کہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اسلام کو وحشیانہ مذہب نہیں کہا جاسکتا جو دوسروں کے حقوق پامال کرنے کی ترغیب دیتا ہو۔ بلکہ یہ تو محبت اور پیار کی زیادہ یقینی فضا پیدا کرتا ہے۔
پس یہ اسلامی تعلیم کی غلط تفسیر اور گمراہ کُن پراپیگنڈہ کی چند مثالیں ہیں جن کی وجہ سے اسلام بدنام ہورہا ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ بداعمال کے حامل چند مٹھی بھر افراد کو اسلام کا نمائندہ نہ سمجھا جائے اور اسی طرح اسلام کے خلاف کئے جانے والے متعصب پراپیگنڈہ کو غیرمعمولی اہمیت دی جائے۔ بطور مثال عیسائیت کو لیں جس کی تعلیم انتہا درجہ کی شفقت کا اظہار کرتی ہے چنانچہ عیسائی تعلیم کی رُو سے اگر کوئی کسی کے داہنے گال پر طمانچہ مارتا ہے تو اُسے اپنا دوسرا گال بھی مارنے والے کے سامنے کردینا چاہئے۔ لیکن اگر کوئی اس تعلیم پر عمل نہیں کرتا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ عیسائیت بُری ہے۔
ضروری ہے کہ معاشرہ میں محبت، باہمی شعور اور مشفقانہ انداز اپنانے کے لئے امن و برداشت کی فضا پیدا کی جائے تاکہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی اس خوبصورت دنیا سے لطف اندوز ہوسکیں۔ دنیا میں جہاں کہیں لوگ احمدیت کے پیغام سے آشنا ہوئے ہیں، وہاں مقامی لوگوں نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے۔ مثلاً جرمنی میں ایک مقام پر جب ہم نے کچھ عرصہ قبل مسجد تعمیر کی تو مقامی لوگوں کی اکثریت نے ہمارے حق میں نہایت مثبت جذبات کا اظہار کیا، اگرچہ بعض متعصب باتیں بھی سنائی دیں۔ انہی متعصب لوگوں میں سے کسی نے ہماری مسجد کو ایک دن آگ بھی لگادی جس کے نتیجہ میں بہت سا نقصان ہوا۔ ایسے میں مقامی لوگوں نے جو تقریباً تمام عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، اس واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کیا۔ اُنہی میں سے کسی نے آگ بجھانے والا الارم بھی بجایا۔ حتیٰ کہ مقامی چرچ کا پادری بھی افسوس کرنے آیا۔ چرچ نے آگ سے ہونے والے ایک لاکھ یورو کے نقصان کو پورا کرنے کے لئے مدد کی پیشکش بھی کی۔ پس یہ جذبات جن کا اظہار مقامی عیسائیوں نے کیا، اسی وجہ سے تھے کہ وہ جانتے تھے کہ احمدی مسلمان ہی اسلام کی صحیح تصویر پیش کرتا ہے اور اِس اسلامی تعلیم پر عمل بھی کرتا ہے۔ اُن کا ’’محبت سب سے اور نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا دعویٰ محض زبانی نہیں بلکہ عملی ہے۔
حضور انور نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ میں سے جو احمدی نہیں ہیں لیکن آج کی شام ہمارے ساتھ معزز مہمان کے طور پر شامل ہیں، دیکھیں گے کہ آپ کے قصبہ میں یہ مسجد امن، رواداری، باہمی افہام و تفہیم اور روشنی کے مینار کے طور پر علامت بنے گی۔ دراصل اس مسجد کو تعمیر کرنے والے اُس شخص کے پیروکار ہیں جس نے اُنہیں اسلام کے حقیقی پیغام سے آشنا کیا۔ چنانچہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں اور اُس کی مخلوق کے لئے ان کے دلوں میں شفقت کے سوا کچھ نہیں۔ ذات، رنگ یا نسل کے فرق کو ملحوظ رکھے بغیراس مسجد میں عبادت کے لئے آپ آسکتے ہیں۔ اس کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں۔ مَیں اس قصبے کے لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اُس نبیؐ پر ایمان رکھتے ہیں جس نے محبت اور امن کی خاطر اپنے شدید دشمن کو بھی معاف کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ امن کے قیام اور محبت کے فروغ کے لئے ہمارے دلوں سے صرف محبت اور پیار ہی پھوٹے گا۔
بانی جماعت احمدیہ جن کو ہم مسیح موعود یقین کرتے ہیں، انہوں نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ’’تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو۔ اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگزر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو۔ اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو۔ اور جذبات نفس کو دبائے رکھو اور اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو۔ اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اٹھ جاؤ۔ اگر تم ستائے جاؤ اور گالیاں دئیے جاؤ اور تمہارے حق میں برے برے الفاظ کہے جائیں تو ہوشیار رہوں کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیسا کہ وہ ہیں۔ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو‘‘۔
مجھے یقین ہے کہ اِن الفاظ نے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک اور خوف کو رفع کردیا ہوگا جنہوں نے اس مسجد یا جماعت احمدیہ کے بارہ میں جنم لیا ہو۔ اللہ کرے کہ یہاں پر رہنے والا ہراحمدی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی صحیح عملی تصویر پیش کرنے والا ہو۔ ہر احمدی لوگوں کے دلوں میں ہر قسم کے خوف دُور کرنے کا باعث بنے۔ مجھے امید ہے کہ یہ مسجد باہمی محبت اور دوستی کی علامت کے طور پر دیکھی جائے گی اور تمام مذاہب کے پیروکاروں کے باہمی تعلق کے حوالہ سے ایک اہم نشان کے طور پر دیکھی جائے گی۔ اور یہاں سے اُس خدا کی محبت کا پیغام پھیلے گا جو اپنی مخلوق سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری باہمی محبت وپیار کے جذبات میں اضافہ فرمائے۔
حضور انور نے اپنے خطاب کو ختم کرنے سے قبل فرمایا کہ آخر پر مَیں تمام معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس مسجد کی افتتاحی تقریب میں شرکت فرماکر اپنی محبت، چاہت اور دوستی کا اظہار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی بہترین جزا آپ کو عطا فرمائے۔ آمین۔ آپ سب کا مکرّر شکریہ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطاب کے بعد ممبر آف یورپین پارلیمینٹ Ms. Fiona Hall نے مختصر خطاب میں اُنہیں اس تقریب میں مدعو کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جون میں ہونے والی میراتھن واک کے موقع پر انہیں پہلی بار اس مسجد کی تعمیر سے متعلق منصوبہ کا علم ہوا تھا جسے آج وہ اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے دیکھ رہی ہیں۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کے دیگر فلاحی منصوبوں سے متأثر ہونے کا بھی ذکر کیا اور خواہش ظاہر کی کہ وہ ایسے منصوبوں کی انجام دہی میں اپنی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ شامل ہونا چاہیں گی۔ انہوں نے ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ کے ماٹو کا ذکر کرکے کہا کہ یہ ماٹو اس علاقہ کے ہر دل میں بلاتفریق زندہ رہے گا۔
اس کے بعد دعا کے ساتھ تقریب اختتام کو پہنچی جس کے بعد حاضرین کی خدمت میں پُرلطف کھانا پیش کیا گیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کے افتتاح کے لئے ایک روز قبل (جمعرات کی شام قریباً چھ بجے) لندن اپنی رہائشگاہ واقع مسجد فضل لندن سے روانہ ہوئے اور رات پونے گیارہ بجے ہارٹلے پول کے صدر مکرم سید ہاشم اکبر احمد صاحب کے ہاں ورود فرمایا۔ حضور انور نے رات کو وہیں قیام فرمایا اور صبح کی نماز بھی گھر پر ہی پڑھائی۔ اگلے روز مسجد کی افتتاحی تقریبات سے فراغت کے بعد بھی حضور انور اُن کے گھر پر تشریف لے گئے جہاں سے ہفتے کو قبل از دوپہر روانگی ہوئی۔ لندن واپسی کے سفر میں حضور انور نے دوپہر کچھ دیر کے لئے سکنتھورپ میں مکرم ڈاکٹر مظفر احمد صاحب صدر جماعت کے ہاں قیام فرمایا۔ حضور انور نے یہاں کھانا بھی تناول فرمایا اور نماز ظہر و عصر بھی جمع کرکے پڑھائی۔ سکنتھورپ سے روانہ ہوکر حضور انور مع اہل قافلہ بخیریت شام پانچ بجے مسجد فضل لندن پہنچ گئے۔