مسجد وزیرخان لاہور

اپنی بے پناہ خوبصورتی، وسعت اور نقش و نگار کے باعث فنّی اعتبار سے نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھی جانے والی مسجد وزیر خان لاہور کی بنیاد چنیوٹ کے رہنے والے شیخ علیم الدین نے رکھی تھی جو ایک طبیب تھے اور شاہجہان کے دربار میں رفتہ رفتہ وزیر کے عہدے تک جا پہنچے تھے جہاں سے ’’وزیر خان‘‘ کا خطاب پایا۔ بعد میں وہ سات سال تک لاہور کے حاکم بھی رہے۔
مسجد وزیر خان بہت وسیع و عریض ہے، بازار کی سطح سے کافی اونچی ہے اور اس کے چار بڑے دروازے ہیں۔ صحن کی لمبائی 175؍فٹ اور چوڑائی 94 فٹ ہے۔ سارے صحن میں خشتی فرش ہے۔ مسجد کے قریباً سبھی کتبے منقوش اور روغنی ٹائیلوں سے سجے ہوئے ہیں۔ مسجد کے چاروں کناروں پر 85، 85 فٹ بلند ہشت پہلو مینار ہیں جن پر کانسی کا نہایت نفیس کام کیا گیا ہے۔ مسجد کے پانچ گنبد ہیں اور ہر گنبد کا قطر بیس فٹ چار انچ ہے۔ صحن کے اردگرد 37 حجرے ہیں اور صحن کے وسط میں ایک حوض ہے جو 36 فٹ لمبا اور اتنا ہی چوڑا ہے۔

تین سو سال گزرنے کے باوجود اس مسجد میں کسی خاص مرمت کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یہ مسجد لاہور کی لاثانی، عالیشان اور قدیم عمارتوں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے جس کے بارے میں مکرم شمشاد احمد قمر صاحب کا تحریر کردہ ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍ستمبر 1998ء میں شامل اشاعت ہے۔
انگریزوں کے ابتدائی عہد سے بہت دیر بعد تک آرٹس سکول کے طلبہ کو یہاں تزئین کا کام سکھانے کے لئے لایا جاتا تھا۔ مسجد کا منبر صنعت گری کا نادر اور دلآویز نمونہ ہے جو ہندوستان کے وائسرائے گورنر جنرل لارڈ کرزن نے 1899ء میں دیا تھا۔ انگریزی عہد میں مسجد کی تولیت کے متعلق ایک طویل مقدمہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت رہا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں