مسیحی فرقے
ماہنامہ ’’خالد‘‘ دسمبر 1998ء میں مکرم نصیب احمد صاحب نے عیسائیت کے چند بڑے فرقوں کی مختصر تاریخ اور عقائد کا تعارف پیش کیا ہے۔
عیسائیوں کا سب سے پرانا اور بڑا فرقہ ’’رومن کیتھولک چرچ‘‘ یا مغربی کلیسا کہلاتا ہے۔ اس کی بنیاد پطرس نے رکھی اور بطور نگران اسے بہت ترقی دی۔ 445ء میں یہ قانون بن گیا کہ جو بھی روم کا بشپ ہوگا وہی مغربی کلیسا کا سربراہ بھی ہوگا اور پوپ کہلائے گا۔ قانون کے مطابق پوپ کا انتخاب عمر بھر کیلئے ہوتا ہے، اسے عقائد میں تبدیلی کے اختیارات بھی حاصل ہیں اور اُس کے فیصلوں کو غلطی سے مبرّا سمجھا جاتا ہے۔پوپ کا مرکز ویٹیکن سٹی ہے۔ مغربی کلیسا کو چوتھی صدی میں عیسائیت قبول کرنے والے رومی بادشاہ Constantine The Great کی وجہ سے بہت تقویت ملی اور اُس نے روم کا سرکاری مذہب عیسائیت کو قرار دے دیا۔ دسویں صدی میں یورپ کے اکثر ممالک کا سرکاری مذہب رومن کیتھولک ہی تھا۔
مغربی کلیسا کا ایک عقیدہ ’’رسولوں کا عقیدہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے جس میں تثلیث، حلول و تجسّم، مصلوبیت، حیات ثانیہ، کفارہ اور نجات وغیرہ سب شامل ہیں۔اس عقیدے میں اکثر ترامیم ہوتی رہیں اور اسی کی وجہ سے عیسائیت مزید فرقوں میں تقسیم ہوتی گئی۔ کیتھولک چرچ کی بائبل میں دوسرے فرقوں کی نسبت سات کتب زائد ہیں۔
گیارھویں صدی میں بعض عقائد کی تبدیلی قبول نہ کرنے کی وجہ سے مشرقی کلیسا وجود میں آیا جو مغربی کلیسا سے بالکل علیحدہ ہے اور خود کو عیسائیت کا حقیقی وارث سمجھتا ہے۔ اسے ایسٹرن آرتھوڈاکس چرچ بھی کہتے ہیں۔ اِن کا عقیدہ ہے کہ انسان خدا کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی اصل نیکی سے گر پڑا جس کے نتیجے میں وہ خدا کی حقیقی معرفت سے محروم ہوکر برائیوں کی طرف مائل ہوگیا لیکن خدا کے بیٹے نے انسانی شکل میں حلول کرکے اور قربانی دے کر انسانیت کی خدا کے ساتھ مصالحت کردی۔ اس کلیسا کے پیروکار اولیاء کو بہت عزت دیتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، تصاویر ممنوع سمجھتے ہیں اور چرچ کے انتظامی مسائل مشاورت سے طے کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کی تعداد 174؍ملین ہے اور اِن کی بائبل کا نام لیمیزا ہے۔
1600ء میں ایک جرمن فلاسفر مارٹن لوتھر نے پوپ کے اختیارات کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور بہت سے مضامین شائع کئے کہ بائبل ہی فائنل اتھارٹی ہے اور پوپ کو عقائد میں تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں۔ اُس نے کئی رسومات ماننے سے بھی انکار کردیا چنانچہ 1518ء میں اُسے اخراج از مذہب کی سزا دی گئی اور اُس نے ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھی جسے لوتھرن چرچ یا پروٹسٹنٹ کہتے ہیں۔ بعد کے زمانہ میں بھی کئی فرقوں نے پوپ کے خلاف احتجاج کیا اور وہ بھی خود کو پروٹسٹنٹ کہلانے لگے۔ رومن کیتھولک کی نسبت پروٹسٹنٹ کی سات کتب کم ہیں اور اِن کی تعداد بھی کروڑوں میں بیان کی جاتی ہے۔
یہوواہ وٹنس فرقہ 1879ء میں چارلس تیزرسل نے امریکہ میں قائم کیا اور 1931ء میں اس کا نام رکھا گیا۔ اسکے معتقدین دوسرے تمام اداروں کو شیطانی سمجھتے ہیں۔ اپنی تعلیمات کی بنیاد بائبل کو بتاتے ہیں اور تمام عیسائی روایات ختم کرکے یہوواہ پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ایک وقت خدا (یہوواہ) اکیلا تھا اور یسوع اُس کی سب سے پہلی مخلوق ہے، بعد میں خدا نے کائنات تخلیق کی اور یسوع کو اپنا شریک کار بنالیا۔چنانچہ یسوع خدا کے برابر نہیں ہے اور حضرت مریم کو خدا کی ماں کہنا سخت گستاخی ہے۔ اِن کا نظریہ ہے کہ 1914ء تک شیطان کی حکمرانی رہی، اس کے بعد یسوع روحانی طور پر دنیا میں آ چکے ہیں۔
یہوواہ وٹنس کا عقیدہ ہے کہ سبت سے مراد سات ہزار سالہ دن ہے۔ جب یہ ختم ہوگا تو تمام افراد پاکیزہ بن جائیں گے۔ یہ کفارہ پر ایمان نہیں رکھتے اور صرف یہوواہ کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ رومن کیتھولک کے سخت خلاف ہیں۔ اپنے قومی جھنڈے کو سلام نہیں کرتے، ووٹ نہیں ڈالتے، حلف برداری سے کتراتے ہیں، شادی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اور یسوع کی آمد ثانی پر پختہ اعتقاد رکھتے ہیں۔ ان کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے۔
ایک بپٹسٹ ویلم ملر نے 1831ء میں پیغام پہنچانا شروع کیا اور 1843ء میں خود کو ایڈوینٹسٹ کہلانا شروع کردیا۔ اُس نے 1843ء اور 1844ء میں تین تاریخیں مسیح کی آمد ثانی کی بیان کیں لیکن جب اُس کی پیشگوئی پوری نہ ہوسکی تو اُس کا فرقہ دو حصوں میں بٹ گیا اور 7th Day Adventist کا یہ عقیدہ ہوا کہ پیشگوئی کی تاریخ صحیح نہیں تھی۔انہوں نے اتوار کی بجائے ہفتہ کو سبت کا دن قرار دیا۔ یہ زندگی وقف کرتے ہیں اور 1874ء میں اِن کی پہلی مبلغ بیرون ملک بھیجی گئی۔ 1903ء میں اِن کا مرکز واشنگٹن منتقل ہوگیا۔ یہ تثلیث پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کے کاموں میں آٹھ سو زبانوں میں عیسائیت کی تبلیغ، پریس لگاکر لٹریچر فروخت کرنا، تعلیمی ادارے قائم کرنا اور شراب اور تمباکو سے پرہیز کرنا شامل ہیں۔ اِن کے بھی اراکین کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔