مغربی افریقہ بھجوائے جانے والے ابتدائی مبلغین احمدیت

(مطبوعہ رسالہ اسماعیل جنوری تا مارچ 2014ء)

مغربی افریقہ بھجوائے جانے والے ابتدائی مبلغین احمدیت
حضرت مولانا عبدالرحیم نیّر صاحبؓ اور الحاج حکیم فضل الرحمان صاحبؓ
(اطہر محمود ملک)

مغربی افریقہ کے لئے بھجوائے جانے والے پہلے مبلغ احمدیت حضرت الحاج مولانا عبدالرحیم نیر صاحب رضی اللہ عنہ تھے۔ آپؓ نے اپنے مختصر عرصہ میں جس محنت اور عرقریزی سے خدمت دین بجالانے کا فریضہ ادا کیا اُس کا اندازہ افریقہ سے بھجوائی جانے والی اُن کی ایک رپورٹ سے کیا جاسکتا ہے۔ آپؓ نے لکھا:
’’ہزاروں میل کے رقبہ اور لاکھوں انسانوں میں، مَیں صرف تنہا ہوں۔ مجھے نہ صرف خوراک اور آب و ہوا سے جنگ کرنا پڑ رہی ہے بلکہ حکام کی غلط فہمیوں سے بھی سابقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا میرا کوئی حامی و ناصر نہیں … وہ جو گرمی میں برف اور شربت پی کر پیاس بجھاتے ہیں، اُن سے کہہ دیں کہ یہاں احمدی مبلغ کو کنوئیں کا پانی بھی میسر نہیں آتا اور اُسے بعض دفعہ پیاس بجھانے کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔ اور وہ جو گھوڑوں بگھیوں موٹروں اور بیل گاڑیوں پر پھرتے ہیں ان سے کہہ دیں کہ یہاں داعیٔ اسلام کو جنگلوں سے پیدل گزرنا پڑتا ہے۔ وہ جو دودھ گھی وغیرہ سے تیارشدہ مٹھائیاں استعمال کرتے ہیں ان کو بتلائیں کہ خادمِ احمدیت کے لئے یہاں یہ چیزیں خواب ہیں‘‘۔
نائیجیریا میں احمدی مبلغین کی آمد سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے بعض سعید روحوں کو رؤیا وکشوف کے ذریعہ حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کی اطلاع دیدی تھی جن میں دارالحکومت لیگوس کی ایک مسجد کے امام الفا ایانمو مرحوم بھی شامل تھے۔ انہوں نے رؤیا میں مسیح موعود اور مہدی معہود کو دیکھا جنہوں نے فرمایا کہ ’’اگرچہ میں ذاتی طور پر تمہارے ملک میں نہیں آؤں گا لیکن میرا ایک بڑا پیرو آئے گا اور وہ اس ملک کے لوگوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرے گا۔ …اور جو کوئی اس کی آواز پر ہاتھ میں اپنے قرآن لئے ہوئے لبیک کہے گا وہ پھلے گااور پھولے گا اور کامیاب ہوگا اور جو کوئی اس کی آواز پر کان نہ دھرے گا وہ تباہ ہوجائے گا‘‘۔
1916-17ء میں لیگوس (نائیجیریا) سے تعلق رکھنے والے چند یوروبا مسلم طلباء قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان پہنچے تو انہیں احمدیہ مسلم مشن لندن اور رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کا علم ہوا۔ بعد ازاںان کا قادیان سے بھی رابطہ ہوگیا۔ دوران تعلیم انہوں نے احمدیہ لٹریچر لیگوس بھجوایا اور تعلیم سے فراغت کے بعد قادیان سے باقاعدہ رابطہ رکھا۔
حضرت مولانا نیر صاحبؓ 1883ء میں ضلع جالندھر کے موضع پھگواڑہ کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پھگواڑہ میں حاصل کی۔ آپؓ کے والد صاحب کرنال کے رہنے والے تھے۔
حضرت نیّر صاحب نے 1901ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی اور ستمبر 1906ء میں آپؓ مستقل طور پر قادیان آگئے۔ ابتداء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں استاد مقرر ہوئے۔ بعد میں کچھ عرصہ حضرت مصلح موعودؓ کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر بھی کام کیا۔
حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر15؍جولائی 1919ء کو حضرت مولانا نیّر صاحب بطور مبلغ، انگلستان کے لئے روانہ ہوئے جہاں سے 19؍فروری 1921ء کو سیرالیون پہنچے اور پھر گھانا اور نائیجیریا بھی بھجوائے گئے۔
حضرت مولانا عبدالرحیم نیّر صاحبؓ غانا سے بذریعہ جہاز 18؍اپریل 1921ء کو نائیجیریا کے صدر مقام لیگوس پہنچے تو وہاں ان دنوں قریباً 35ہزار مسلمان آباد تھے جبکہ عیسائیوں کی آبادی 20ہزار تھی۔ مگرعلم، دولت، تجارت اور سرکاری عہدے سب عیسائیوں کے ہاتھ میں تھے۔ اور جہاں عیسائیوں کے چالیس مدارس تھے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک (محمڈن سکول) تھا۔ حضرت مولانا نیّر صاحبؓ نے لیگوس کی مختلف مساجد میں لیکچر دئیے اور پھر پبلک لیکچروں کا سلسلہ شروع کیا جس سے سعید روحیں احمدیت کی طرف آنے لگیں۔ جب آپؓ کو امام ’’الفاایانمو‘‘ کی خواب کا علم ہوا تو اپنی خوش بختی کا تصور کر کے آپ کی آنکھوں میں آنسو گئے۔ اس خواب کی تائید کرتے ہوئے دس ہزار افراد نے بیک وقت بیعت کر نے کی سعادت حاصل کی۔
حضرت مولانا نیّر صاحبؓ نے پرنس الیکو سلطان لیگوس کو بھی ان کے محل میں جاکر احمدیت کا پیغام پہنچایا اور چار ماہ تک دیوانہ وار تبلیغی فرض ادا کرکے اگست 1921ء میں سالٹ پانڈ (غانا) تشریف لے گئے۔ پھر دوبارہ 15 دسمبر 1921ء کو لیگوس پہنچے اور پھر نائیجیریا کے دوسرے حصوں میں بھی تبلیغ شروع کی۔ نیز لیگوس میں 11ستمبر 1922ء کو مدرسہ تعلیم الاسلام جاری کیا۔ شدید محنت کرنے کی وجہ سے آپؓ قریباً چار ماہ تک بیمار رہے اور گورنمنٹ ہسپتال میں داخل کئے گئے۔ پھر آپ ڈاکٹری ہدایت کے تحت تبدیلی آب و ہوا کے لئے 21 جنوری 1923ء لندن بھجوادئیے گئے۔ جہاں دو سال کام کرنے کے بعد 1924ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی رفاقت میں آپؓ قادیان واپس آگئے۔
ہندوستان واپس آنے کے بعد قریباً پانچ سال بھوپال اور حیدرآباد میں خدمات بجالاتے رہے اور اس کے بعد قادیان میں مختلف جماعتی اداروں میں خدمت کی توفیق پائی۔ بعد ازاں ریٹائر ہوگئے اور 1947ء میں ہجرت کرکے گوجرانوالہ میں آباد ہوئے اور یہیں 17ستمبر 1948ء کو وفات پائی۔
حضرت نیر صاحبؓ کے بعد مالی مشکلات کی وجہ سے سالہاسال تک کوئی مرکزی مربی نائیجیریا نہیں بھجوایا جاسکا۔ آخر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد پر الحاج حکیم فضل الرحمان صاحبؓ نے ستمبر 1929ء کے قریب غانا سے واپسی سے پہلے نائیجیریا کا دورہ کیا۔ پھر حکیم صاحب فروری 1933ء میں قادیان سے روانہ ہوکر لندن، سیرالیون اور غانا میں قیام کرتے ہوئے جولائی 1934ء میں نائیجیریا پہنچے۔ لیکن وہاں پہنچتے ہی ایک خطرناک اندرونی کشمکش سے دوچار ہوگئے جو بعض لوگوں نے خودساختہ قانون کی بِنا پر پیدا کر دی تھی۔ معاملہ آخر عدالت تک پہنچا۔ 20 مارچ 1937ء کو اگرچہ آپؓ کے حق میں فیصلہ ہوگیا لیکن اس کے باوجود 1939ء تک حالات مخدوش رہے۔
1940ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد پر جماعت کی تشکیل نَو کی گئی جس کے بعد حضرت حکیم صاحب نے جماعت نائیجیریا کی طرف پوری توجہ دی اور مسلسل جدوجہد سے مشن کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کر دیا۔ تعلیم الاسلام سکول کے لئے سرکاری گرانٹ منظور کرائی، نئی جماعتیں قائم کیں، لیگوس میں نہایت خوبصورت مسجد اور مشن ہاؤس تعمیر کیا، آنحضرتﷺ کی سیرت طیبہ ’’دی لائف آف محمد‘‘ کے نام سے تصنیف کی جو مغربی افریقہ کے سکولوں کے نصاب میں شامل ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں