مقامِ محمودؓ – نورالدینؓ کی نظر میں
جماعت احمدیہ بیلجیم کے رسالہ ’’السلام‘‘ جنوری، فروری 2005ء میں مکرم ابوالمنصور احمد صاحب کے قلم سے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی نظر میں حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ کے مقام کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ اس سے قبل اسی موضوع پر 15؍فروری 2001ء اور 16؍فروری 2002ء کے الفضل انٹرنیشنل کے شماروں میں اسی کالم میں یہ مضمون بیان ہوچکا ہے۔ بعض اضافی واقعات درج ذیل ہیں:
* حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے 26 ستمبر 1912ء کو قادیان سے روانہ ہوئے تو ایک روز قبل ایک الوداعی تقریب منعقد کی گئی جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ بھی تشریف لائے۔ تلاوتِ قرآن کریم کے بعد بزرگوں نے تقاریر کیں اور دو طلبہ نے نظمیں پڑھیں۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ نے اس موقع پر اپنی تقریر میں فرمایا کہ: ’’حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کے ایام علالت میں ایک دن میں نے گھبرا کر بہت دعا کی تو میں نے خواب میں حضورؓ کو دیکھا کہ میاں صاحبؓ کو پکڑے ہوئے ہیں اور فرماتے ہیں: پہلے بھی اوّل تھے، اب بھی اوّل ہیں‘‘۔ حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد جب آپؓ 3؍فروری 1913ء کو قادیان پہنچے تو سارا شہر آپؓ کے استقبال کے لئے جمع تھا۔ شہر کے باہر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ بھی تشریف لے گئے اور آپؓ سے مصافحہ اور معانقہ فرمایا۔
14فروری1913ء کو احمدیہ سکول کے طلباء نے آپؓ کے اعزاز میں دعوت دی جس میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے ایک مختصر تقریر میں فرمایا کہ ’’بعض اَشخاص نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ ہم کو میاں صاحب کے تشریف لانے کی خوشی میں کیا کرنا چاہئے اور ہم آپ سے اس لئے دریافت کرتے ہیں کہ حضور جو کچھ بھی تجویز فرمائیں گے وہ بہت ہی اعلیٰ وافضل ہوگا‘‘۔ اس سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ ’’تمام لوگ نماز ظہر کے بعد صلوٰۃالحاجۃ پڑھیں اور میاں صاحب کیلئے دعا فرمائیں‘‘۔ چنانچہ لوگ مسجد نور میں چلے گئے جہاں ظہر کے بعد صلوٰۃ الحاجۃ پڑھی گئی۔
* صرف دس سال کی عمر میں انجمن ہمدردانِ اسلام میں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے تقریر فرمائی۔ حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی ؓ فرماتے ہیں: ’’تقریر کیا تھی علم و معرفت کا دریا اور روحانیت کا ایک سمندر تھا تقریر کے خاتمہ پر حضرت مولانا نورالدینؓ کھڑے ہوئے… اور آپ کی تقریر کی بے حد تعریف کی، قوتِ بیان اور روانی کی داد دی۔ نکاتِ قرآنی اور لطیف استدلال پر بڑے تپاک اور محبت سے مرحبا، جزاک اللہ کہتے ہوئے دعائیں دیتے۔ نہایت اِکرام کے ساتھ گھر تک آپ کے ساتھ آکر رخصت فرمایا‘‘۔
* حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے اپنی وفات سے قبل اپنے فرزندمیاں عبد الحئی صاحب کو بلایا اور نصائح میں یہ بھی فرمایا: ’’حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود اور خدا کا برگذیدہ انسان سمجھتا ہوں۔ مجھے ان سے اتنی محبت تھی کہ جتنی میں نے ان کی اولاد سے (محبت) کی، تم سے نہیں کی… ‘‘۔
محترم ملک غلام فرید صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورؓ نے میاں عبد الحئی صاحب مرحوم کو فرمایا ’’میاں تم سے ہمیں بہت محبت ہے لیکن حضرت صاحب کی اولاد ہمیں تم سے بھی زیادہ پیاری ہے‘‘۔
* حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب کی آپؓ کے دل میں کتنی عزت تھی اس کے بارہ میں محترم مولانا ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنے مکان کی بیٹھک میں بعد نماز فجر حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو روزانہ قرآن شریف کے دو تین رکوع ترجمہ کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے جن کو سننے کے لئے کافی لوگ جمع ہوجایا کرتے تھے۔ عاجز بھی ان دنوں مدرسہ احمدیہ کا طالب علم تھا اور درس سننے کے لئے جایا کرتا تھا۔ میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حضرت میاں محمود احمد صاحب تشریف لاتے اور لوگوں کے پیچھے بیٹھ جاتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح جب آپ کو دیکھتے تو جس گدیلے پر آپ بیٹھے ہوتے اُس میں آدھا خالی کرکے فرماتے میاں آگے تشریف لائیے۔ اس پر حضرت میاں صاحب آپ کے ارشاد کی تعمیل میں آپکے پاس بیٹھ جاتے۔ آپؓ کے دوسری طرف حضرت میاں بشیر احمد صاحب بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دن جبکہ حضورؓ سورۃالنحل کا درس دے رہے تھے اور آیت:
لَاتَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا
کا درس تھا تو حضرت خلیفہ اولؓ نے آپؓ سے کہا میاں! میں آپ کا امتحان لینا چاہتا ہوں۔ آپ اس آیت کا مطلب بتائیں۔ اس پر حضرت میاں صاحب نے آہستگی سے اس کی تشریح بیان فرمائی جسے سن کر حضرت خلیفہ اولؓ نے صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحبؓ کی طرف منہ کر کے فرمایا کہ میاں محمود احمد صاحب تو پاس ہوگئے ہیں، اب آپکا امتحان باقی ہے۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے کئی مرتبہ اپنے خطبات میں بیان فرمایا کہ بعض اوقات جب بیٹھے بیٹھے حضورؓ کی طبیعت خراب ہوجاتی تو آپؓ فرماتے کہ اب احباب تشریف لے جائیں اس پر اکثر احباب چلے جاتے مگر چند دوست پھر بھی بیٹھے رہتے۔ حضورؓ فرماتے اب نمبردار بھی چلے جائیں۔ اس پر وہ لوگ بھی اُٹھ جاتے لیکن جب حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اٹھنے لگتے تو حضورؓ فرماتے: میاں آپ مراد نہیں ہیں۔
* محترم مولانا ظہور حسین صاحب کا بیان ہے کہ ایک دن جب حضورؓ نے ایک خط سادہ لفافہ میں ڈال کر فرمایا کہ میاں محمود احمد صاحب کو دے آؤ۔ میں نے اسے پڑھا تو حیرانی کی حد نہ رہی کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے حضرت میاں صاحب کو اس طرح ادب اور محبت سے مخاطب کیا ہوا تھا جس طرح کسی بڑے بزرگ کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ مجھے اس وقت خیال آیا کہ اوہو! حضرت میاں صاحب کا اتنا بڑا مقام ہے۔ اس خط کا یہ مضمون تھا کہ بازار میں بعض احمدیوں کے جھگڑے ہوتے رہتے ہیں دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کردے۔
* مکرم شوق محمد عرائض نویس آف لاہور بیان کرتے ہیں کہ 1903ء میں مَیں قادیان میں بغرض تعلیم مقیم تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بچپن میں ہی چلتے وقت نہایت نیچی نظریں رکھا کرتے تھے۔ اور چونکہ آپ کو آشوب چشم کا عارضہ عموماً رہتا تھا اس لئے کئی بار میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کو خود اپنے ہاتھ سے آپ کی آنکھوں میں دوائی ڈالتے دیکھا۔ وہ دوائی ڈالتے وقت عموماً نہایت محبت اور شفقت سے آپؓ کی پیشانی پر بوسہ دیا کرتے اور رخسار مبارک پر دستِ مبارک پھیرتے ہوئے فرمایا کرتے۔ ’’میاں تو بڑا ہی میاں آدمی ہے۔ اے مولا! اے میرے قادرِ مطلق مولا! اس کو زمانہ کا امام بنا دے‘‘۔ بعض اوقات فرماتے: ’’اس کو سارے جہان کا امام بنا دے‘‘۔ مجھ کو حضور کا یہ فقرہ اس لئے چبھتا کہ آپ کسی اَور کے لئے ایسی دعا نہیں کرتے تھے۔ چونکہ طبیعت میں شوخی تھی اس لئے میں نے ایک روز کہہ دیا آپ میاں صاحب کیلئے اس قدر عظیم الشان دعا کرتے ہیں، کسی اَور کے لئے کیوں نہیں کرتے۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا۔ ’’اس نے تو امام ضرور بننا ہے۔ میں تو صرف حصولِ ثواب کے لئے دعا کرتا ہوں۔ ورنہ اس میں میری دعا کی ضرورت نہیں‘‘۔ میں یہ جواب سن کر خاموش ہوگیا۔
* محترم قاضی رحمت اللہ صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح لاوّلؓ کی خدمت میں اپنا ایک رؤیا لکھا جس پر آپؓ نے تحریر فرمایا: ’’میرے بعد میاں محمود احمد خلیفہ ہوں گے‘‘۔
* 14جون 1912ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے فرمایا: ’’مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود، بشیر، شریف، نواب ناصر، نواب محمد علی خان کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا۔ میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں۔ اُن کو خدا کی رضا کے لئے محبت ہے۔ میاں محمود بالغ ہے اس سے پوچھ لو کہ وہ میرا سچا فرمانبردار ہے… اور ایسا فرمانبردار ہے کہ تم میں سے ایک بھی نہیں۔‘‘
* آپؓ کے فرزند میاں عبد الوہاب عمر لکھتے ہیں: ’’حضورؓ فرمایا کرتے تھے کہ محمود کی خواہ کوئی کتنی شکایتیں ہمارے پاس کرے ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ ہمیں تو اس میں وہ چیز نظر آتی ہے جو اُن کو نظر نہیں آتی۔ یہ لڑکا بہت بڑا بنے گا اور اس سے خدا تعالیٰ عظیم الشان کام لے گا۔‘‘
* حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی طبیعت ایک مرتبہ عید کے موقعہ پر علیل تھی۔ آپ مسجد میں تو تشریف لے گئے مگر خطبہ کے لئے حضرت صاحبزادہ صاحب کو ارشاد فرمایا۔ پھر جب حضرت صاحبزادہ صاحبؓ دس پندرہ دن کے لئے شملہ جانے لگے تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے آپ کو رخصت کرتے وقت گلے لگایا اور پیار کیا اور فرمایا: ’’جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہیں بہت سی برکتیں دے‘‘۔