مقدمہ دیوار
جماعت احمدیہ کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی جہاں ہندوستان بھر سے لوگ آکر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت حاصل کرنے لگے وہاں حضورؑ کے بعض شرکاء جو قادیان میں ہی رہتے تھے اور نہ صرف آپؑ کے دشمن تھے بلکہ دین کا بھی تمسخر اُڑایا کرتے تھے، وہ حضورؑ کو ہرممکن آزار پہنچانے میں سرگرم عمل ہوگئے۔ چنانچہ 5؍جنوری 1900ء کو حضورؑ کے چچازاد مرزا امام دین صاحب نے مسجد مبارک کو مہمان خانہ سے ملانے والی شارع عام بند کرکے اینٹوں کی دیوار کھنچوادی۔
حضورؑ نے حضرت چودھری حاکم علی صاحبؓ کو مرزا امام دین کے پاس بھجوایا کہ وہ راستہ بند نہ کریں، اس سے مہمانوں کو تکلیف ہوگی اور اگر انہیں جگہ کی ضرورت ہے تو حضورؑ کی کسی دوسری زمین پر قبضہ کرلیں۔ لیکن جواباً مرزا امام دین صاحب نے طعن و تشنیع سے کام لیا۔ اُن دنوں ڈپٹی کمشنر قادیان کے ایک قریبی گاؤں ہرچوال میں آیا ہوا تھا۔ حضرت حافظ حاجی حکیم فضل الدین صاحب بھیرویؓ کی قیادت میں پچاس احمدیوں کا ایک وفد اُس کے پاس پہنچا۔ اس وفد کے ترجمان حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ تھے۔ ابھی آپؓ نے بات شروع ہی کی تھی کہ ڈپٹی کمشنر نے ڈانٹ دیااور سخت الفاظ میں یہ بھی کہا کہ مَیں اب جلد تمہاری خبر لینے والا ہوں اور تم کو پتہ لگ جائے گا کہ کس طرح ایسی جماعت بنایا کرتے ہیں۔ پھر اُس نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو کہا کہ ان لوگوں کا بندوبست کرنا چاہئے۔
یہ احوال سن کر حضور علیہ السلام نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ نے بھیرہ تشریف لے جانے کا عرض کیا اور حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے سیالکوٹ، حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب نے لاہور اور حضرت چودھری حاکم علی صاحبؓ نے اپنے گاؤں چک پنیار ضلع سرگودھا تشریف لے جانے کی دعوت دی۔ اسی تجویز کے دوران حضورؑ کی طرف سے ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں مقدمہ درج کروادیا گیا۔ حضورؑ کی پوری زندگی میں یہ پہلا اور آخری موقع ہے کہ آپؑ نے مدعی کی حیثیت سے کسی کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔
چونکہ اس زمین کے سلسلہ میں قبل ازیں ایک مقدمہ کا فیصلہ مرزا امام دین صاحب کے حق میں ہوچکا تھا اس لئے وکلاء کا خیال تھا کہ اس مقدمہ میں کامیابی کی امید نظر نہیں آتی۔ خواجہ کمال الدین صاحب نے مشورہ دیا کہ کچھ روپیہ دے کر مصالحت کرلی جائے۔ حضورؑ اس پر رضامند بھی ہوگئے لیکن مرزا امام دین صاحب نے صاف انکار کردیا بلکہ مخالفت میں بڑھ کر یہ کہنا شروع کردیا کہ مقدمہ کا فیصلہ ہونے کے بعد وہ حضورؑ کے گھروں کے دروازوں کے آگے بھی لمبی دیوار کھینچ دیگا اور یوں آپؑ کا محاصرہ کرلیگا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضورؑ کو تسلّی دیتے ہوئے کامیابی کی خوشخبری دی۔
15؍جولائی 1901ء کو حضورؑ بیان دینے کی خاطر گورداسپور تشریف لے گئے۔ اگلے روز بیان ریکارڈ کروایا۔ پھر سماعت 10؍اگست تک ملتوی ہوگئی جس کے بعد 12؍اگست کو فیصلہ کا دن مقرر ہوا۔ قانونی طور پر مرزا امام دین صاحب کے حق میں سارے شواہد اکٹھے تھے۔ اتفاقاً خواجہ صاحب کو خیال آیا کہ پرانی مسل کا انڈیکس دیکھنا چاہئے۔ جب وہ دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ اس زمین پر حضورؑ کے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب بھی قابض ہیں۔ چنانچہ یہی ثبوت عدالت میں پیش کیا گیا تو جج نے مرزا امام دین پر ڈگری زمین بمعہ خرچ کردی۔ 12؍اگست کی سہ پہر جب یہ خبر قادیان پہنچی تو جماعت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ حضورؑ نے فرمایا کہ گویا ایک سال آٹھ ماہ کا رمضان تھا جس کی آج عید ہوئی ہے۔
پس جس بھنگی نے دیوار کھینچی تھی، اُسی نے یہ گرائی۔ خواجہ صاحب نے حضورؑ کی اجازت کے بغیر خرچہ کی ڈگری لے کر اس کا اجراء کروادیا۔ جب سرکاری آدمی مطلوبہ 144؍روپیہ کی وصولی کے لئے قادیان آیا تو مرزا امام دین صاحب کے پاس ادائیگی یا قرقی کے علاوہ کوئی صورت نہ تھی۔ حضورؑ گورداسپور میں قیام فرما تھے۔ چنانچہ وہ وہاں جاکر معافی کے خواستگار ہوئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ میری لاعلمی میں یہ تکلیف پہنچی ہے۔ حضورؑ نے معذرت کی اور اپنی تکلیف نظرانداز کرتے ہوئے اُنہیں معاف فرمادیا۔
ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ مارچ 2001ء میں تاریخ احمدیت کا یہ ورق مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔