موتی
موتی کی تخلیق بغیر ہڈی والے اُس جانور کے جسم سے ہوتی ہے جو سیپ کے اندر پایا جاتا ہے۔ عام موتی کا رنگ دودھیا ہوتا ہے جبکہ سیاہ، نیلے، زرد اور قرمزی رنگوں کے موتی بھی دیکھے جاتے ہیں۔ سیپ کے اندر رہنے والے جانور کا جسم لعاب دار اور ملائم ہوتا ہے۔ اس کی کھال اور ہڈی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی ریت کا ذرّہ یا کنکر وغیرہ اُس کے اندر داخل ہوجائے تو اُسے شدید تکلیف ہوتی ہے اور تکلیف سے بچنے کے لئے لیسدار لعاب اُس چیز پر پھینکتا ہے جس سے تکلیف ختم ہوجاتی ہے اور وہ مادہ اُس چیز پر جم کر اُسے چکنا اور نرم کردیتا ہے۔ لعاب پڑتے رہنے سے کچھ عرصہ بعد وہ مادہ ایک چمکدار موتی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جب تک جانور زندہ رہتا ہے، موتی موم کی طرح نرم ہوتا ہے لیکن اُس کے مرنے کے بعد موتی سخت ہوجاتا ہے۔
سیپ کا خول کھردرا اور سخت ہوتا ہے لیکن اندر سے بڑا ملائم اور چمکیلا ہوتا ہے جہاں وہ جانور آرام سے سے رہتا ہے۔ سیپ کا منہ ایک طرف سے کھل سکتا ہے جبکہ دوسری طرف قبضہ لگا ہوتا ہے۔ سیپی کے اندر داخل ہونے والا عنصر جتنے حجم کا ہوتا ہے، موتی بھی اُسی سائز کا ہوتا ہے۔ اس وقت تک سب سے بڑا موتی 120؍گرام کا پایا گیا ہے۔
موتی کا کاروبار کرنے والے سیپ کو ایسی خاص بوٹیوں کے ساتھ ابالتے ہیں جس سے موتی میں سختی اور چمک آجاتی ہے۔ یہ علم ہونے کے بعد کہ موتی کیسے بنتا ہے، ماہرین نے اپنی مرضی کے موتی بنانے کی کوشش کی۔ اس کام کی ابتداء چین میں ہوئی جس میں کامیابی کے بعد یہ کاروبار مربوط شکل اختیار کرگیا۔ 1890ء میں جاپانی سائنس دان کوکوچکی نے مصنوعی موتی سازی کی صنعت کو تحریک دی۔ یہ صنعت اب ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے۔
یہ معلوماتی مضمون مکرم خالد غزنوی صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ مارچ 2003ء میں شامل اشاعت ہے۔