مولانا ظفر محمد صاحب ظفر
ماہنامہ ’’خالد‘‘ نومبر 2010ء میں مکرم ندیم احمد فرخ صاحب کا مرسلہ ایک مضمون شامل اشاعت ہے جو کہ محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کی تصنیف ’’معجزات القرآن‘‘ سے منقول ہے اور اس میں محترم مولانا صاحب کی سیرت و خدمات کا اختصار سے احاطہ کیا گیا ہے۔
محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ ایک مایہ ناز عالم، فاضل استاد اور نابغہ روز گار شاعر تھے۔ تعلق باللہ اور للہیت اور علم و فضل کے حسین امتزاج، سراپا عجز و انکسار اور نام و نمود سے بے نیاز وجود تھے۔ آپ کی گہری علمی تحقیق و تدقیق اور عارفانہ کلام سے ہر کوئی متاثر ہوا اور اس وقت بھی مستفیض ہو رہا ہے۔
1901ء میں بستی مندرانی (تونسہ شریف) کے چند سعید فطرت صحراؤں اور جنگلوں کو عبور کرکے پاپیادہ قادیان پہنچے اور حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔ جن میں بلوچ قبیلہ کی نتکائی شاخ کے حضرت حافظ فتح محمد خاں صاحبؓ بھی شامل تھے۔ اُن کے ہاں محترم ظفرمحمد ظفر صاحب 19 اپریل 1908ء کو پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم کے بعد 13 سال کی عمر میں محترم مولانا صاحب کی ایک خواب کی بِنا پر آپ کے والد صاحب نے آپ کو قادیان بھجوادیا۔ 1922ء سے 1929 ء تک آپ کو حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفۃالمسیح الثالث ؒ) کا ہم جماعت رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ 1929ء میں آپ نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ 1930ء اور 1931ء میں جامعہ احمدیہ میں مبلغ کورس نمایاں کامیابی سے پاس کیا۔ اسی دوران آپ نے ’’جامعہ احمدیہ‘‘ رسالہ کے دو شمارے مرتب کیے جو بے حد مقبول ہوئے۔
جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بہاولپور میں بطور مربی مقرر کیے گئے۔ کچھ عرصہ بعد مدرسہ احمدیہ میں بطور استاد متعین ہوئے اور 1935ء تک تدریسی فرائض سرانجام دیے۔ 1936ء میں آپ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری رہے۔ 1937ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کی زیر نگرانی انچارج کار خاص رہے۔ 1937ء میں نصرت گرلز ہائی سکول قادیان میں بطور معلم کام کیا۔ اس دوران آپ بطور قاضی سلسلہ بھی فرائض سرانجام دیتے رہے۔
مارچ 1939ء سے مارچ 1944ء تک اپنے وطن میں قیام پذیر رہے اور اس دوران آپ نے ادیب فاضل، منشی فاضل اور ایف اے کے امتحان پاس کیے۔ 1944ء میں جامعہ احمدیہ میں استاد مقرر ہوئے جہاں سے 1956ء میں آنکھوں کی تکلیف کے باعث فارغ ہوگئے۔ پھر کچھ عرصہ چوہدری احمد مختار صاحب کی خواہش پر کراچی میں حضرت اقدس علیہ السلام کی بعض عربی کتب کا ترجمہ کیا۔
حضرت مولانا موصوف کو عربی، اردو اور فارسی زبانوں پر کامل عبور اور دسترس حاصل تھی۔ تینوں زبانوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ سلسلہ کے اخبارات اور رسائل میں آپ کا کلام شائع ہوتا رہا۔ 1980ء میں آپ کاشعری مجموعہ ’’کلام ظفر‘‘ بھی شائع ہوا۔
قرآن کریم سے آپ کو گہرا شغف اور بڑی محبت تھی۔ قرآن کریم کے رموز و اسرار اور حقائق و معارف کے جاننے میں منہمک رہتے۔ مقطعات قرآنی اور علم الاعداد کا گہرا علم رکھتے تھے۔ تین کتب کے بیش قیمت مسودات تحریر کیے: 1۔ ہمارا قرآن اور اس کا اسلوب بیان – 2۔ قرآن زمانے کے آئینہ میں۔ 3۔ معجزات القرآن
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃالمسیح الرابعؒ ) نے ’’معجزات القرآن‘‘ کے مسودہ کا مطالعہ فرمایا۔ اور یہ رائے رقم فرمائی:
’’… خاکسار نے گہری دلچسپی کے ساتھ بالاستیعاب مطالعہ کیا۔ آپ نے قرآن کریم کی معجزانہ شان کے جس پہلو پر قلم اٹھایا ہے یہ علم قرآن کی ایک ایسی شاخ ہے جس پر آج تک بہت کم لکھا گیا ہے۔ اس مسودہ کے مطالعہ سے یہ دیکھ کر طبیعت میں ہیجان پیدا ہو جاتا ہے کہ علوم کی کائنات میں اس پہلو سے بھی تحقیق اور دریافت کا کتنا بڑا جہان کھلا پڑا ہے۔ اور اہل فکر کو جستجو کی دعوت دے رہا ہے۔ اس مطالعہ سے مجھے بہت کچھ حاصل ہوا ہے۔ کئی نئے علمی نکات سے لطف اندوز ہوا اور دل میں اس خیال سے شکرو امتنان کے جذبات پیدا ہوئے کہ اللہ تعالیٰ حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعاؤں کو آپ کے غلاموں کے حق میں قبول فرما رہا ہے اور علم و معرفت کے نئے نئے دروازے ان پر کھول رہا ہے۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ۔ ‘‘
آپ صاحب رؤیاو کرامات بزرگ تھے۔ محبت الٰہی، محبت رسولؐ اور محبت قرآن آپ کے رگ و ریشہ میں سرایت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے ساتھ سچی محبت تھی۔ الغرض یہ وجود عجز و انکسار اور علم و معرفت سے مزین تھا۔
آپ نے 23 اپریل 1982ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں محو خواب ہیں۔ وفات سے قبل آپ نے یہ پُراثر شعر کہا:
آئے میرے عزیز ہیں مرے مزار پر
رحمت خدا کی مانگتے مشت غبار پر