مولانا مودودی کا خراج تحسین (غیبی حفاظت)
ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا مارچ 1996ء میں شائع شدہ ایک مضمون میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو خراج تحسین پیش کرنے والے بعض غیراز جماعت مشاہیر کی تحریرات مکرم ہدایت اللہ ہادی صاحب نے پیش کی ہیں۔
مولانا ابو الا علیٰ مودودی صاحب اپنے ماہنامہ ’’ترجمۃالقرآن‘‘ پٹھا نکوٹ، اگست 1934ء (صفحہ 57، 58) میں لکھتے ہیں:
’’مَیں اکثر اوقات اس پر غور کرتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ مرزا غلام احمد کو اپنے مشن … میں اس قدر کامیابی حاصل ہوئی؟ مجھے مرزا صاحب کی کامیابیوں کا سلسلہ لامتناہی نظر آتا ہے اور جس وقت مرزا صاحب کے مخالفین کی نامرادیوں پر غور کرتا ہوں تو وہ بھی بے حد و بے حساب نظر آتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایک شخص خدا اور اس کے رسول کے مقابل پر کھڑا ہوتا ہے، نائبین رسولؐ کو چیلنج کرتا ہے کہ تم سب مل کر بھی میرے مشن کو فیل نہیں کر سکتے کیونکہ خدا کی تائید میرے شامل حال ہے۔ تم جب بھی میرے مقابلہ پر آؤ گے ہر مرتبہ ذلیل و نامراد ہو گے اور یہی میرے نبی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مرزائیوں کی حفاظت کے سامان غیب سے پیدا ہو جاتے ہیں… دوسری طرف مرزائیوں کے مخالفین کی تباہی کے سامان بھی غیب سے ظہور میں آجاتے ہیں۔‘‘
——————————
غیبی حفاظت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍نومبر 2001ء میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ایک تحریر منقول ہے جو اُن کے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ اگست 1934ء کے صفحہ 57-58 پر شائع ہوئی تھی۔ مولانا صاحب لکھتے ہیں:
’’مَیں اکثر اس پر غور کرتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ مرزا غلام احمد کو اپنے مشن میں اس قدر کامیابی حاصل ہوئی۔ مجھے مرزا صاحب کی کامیابیوں کا سلسلہ لامتناہی نظر آتا ہے اور جس وقت مرزا صاحب کے مخالفین کی نامرادیوں پر غور کرتا ہوں تو وہ بھی بے حدوحساب نظر آتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایک شخص خدا اور اس کے رسول کے مقابلہ پر کھڑا ہوتا ہے، نائبین رسول کو چیلنج کرتا ہے کہ تم سب مل کر بھی میرے مشن کو فیل نہیں کرسکتے کیونکہ خدا کی تائید میرے شامل حال ہے، تم جب بھی میرے مقابلہ پر آؤگے ہر مرتبہ ذلیل و نامراد ہوگے اور یہی میرے نبی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مرزائیوں کی حفاظت کے سامان غیب سے پیدا ہوجاتے ہیں …۔ دوسری طرف مرزائیوں کے مخالفین کی تباہی کے سامان بھی غیب سے ظہور میں آجاتے ہیں۔ ذرا سچے رسول کی ختم نبوت کی حفاظت کرنے والوں کی ناکامیاں اور تباہیاں سامنے لائیے۔ کس قدر زوردار تحریک اٹھی تھی اور کیسے ہمیشہ کے لئے ختم ہوکر رہ گئی۔‘‘
——————————
ایک ضروری تصحیح (بشکریہ):
مذکورہ بالا حوالہ کے اس ویب سائٹ پر اشاعت کے بعد ہمارے ایک معزز قاری (مکرم عثمان مسعود جاوید صاحب آف سویڈن) نے اس کی تصحیح فرمائی ہے کہ یہ الفاظ مولانا مودودی صاحب کے نہیں ہیں بلکہ یہ کسی دوسرے شخص کا سوال ہے جس کا جواب مولانا صاحب سے مانگا گیا ہے- قارئین سے درخواست ہے کہ کمنٹس میں دیا گیا مکرم عثمان صاحب کا مرسلہ پیغام بھی ملاحظہ فرمالیں- لیکن چونکہ مذکورہ بالا تحریر مؤقر جرائد “الفضل انٹرنیشنل” لندن اور “احمدیہ گزٹ” کینیڈا میں شائع شدہ ہے اس لئے اس میں تبدیلی نہیں کی جارہی- شکریہ
یہ مولانا مودودی کے الفاظ غالبا نہیں ہیں۔ ماہنامہ ترجمان القرآن میں ایک سیکشن ہوا کرتا تھا رسائل و مسائل۔ اس سیکشن میں مولانا مودودی سوالات کے جوابات دیا کرتے تھے۔ یہ تو شاید سائل کا سوال تھا جو من و عن پیش کر کے مولانا مودودی نے نیچے جواب دیا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے یہ 1954ء یا 1955ء یا 1956ء کا ماہنامہ ترجمان القرآن کا شمارہ تھا۔ سب سے پہلے یہ حوالہ میں نے 1997ء میں جلسہ اعظم مذاہب کے سو سال پورے ہونے پر اپنے دوست اور بڑے بھائیوں کی طرح اس وقت مربی سلسلہ دارالذکر لاہور عزیزم حنیف محمود صاحب کی کتاب میں پڑھا تھا جو جلسہ اعظم مذاہب پر لکھی گئی تھی۔ اس میں بھی انھوں نے جہاں تک مجھے یاد ہے ترجمان القرآن کا حوالہ دیا تھا یہ نہیں لکھا تھا کہ مولانا مودودی نے لکھا ہے۔ میں کیونکہ غلام احمد پرویز صاحب کے ادارہ طلوع اسلام جاتا رہتا تھا اور بقول حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ پرویز صاحب نے مولانا مودودی سے بڑی دلچسپ ٹکریں لی ہوئی ہیں (بحوالہ مذہب کے نام پر خون) اس لیے مجھے خیال آیا اور میں نے ادارہ طلوع اسلام جا کر شمارے کا بتایا اور فوٹو کاپی کی درخواست کی جو مجھے مل گئی۔ تب پتہ چلا کہ یہ سائل کے سوال کے الفاظ ہیں جنہیں مولانا مودودی کے الفاظ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس ضمن میں مَیں جلد اپنی فیس بک ٹائم لائن پر بھی پوسٹ لگا رہا ہوں۔ والسلام۔
عثمان مسعود صاحب کا تبصرہ بالکل ٹھیک ہے ۔ مودودی صاحب نے کبھی بھی یہ الفاظ نہیں لکھے بلکہ ان کے کسی قاری کا یہ سوال ہے جو مودودی صاحب کے نام غلطی سے منسوب ہوگیا ہے۔