مومنؔ – ایک باکمال شاعر
حکیم مومن خان مومنؔ 1800ء میں دہلی میں حکیم غلام نبی کے ہاں پیدا ہوئے۔ اسلاف کشمیر سے ہجرت کرکے 1761ء میں دہلی وارد ہوئے تھے اور طبابت آبائی پیشہ تھی چنانچہ شاہی حکماء میں جگہ ملی۔ مومنؔ کے والد بھی حاذق طبیب اور مذہب سے گہرا لگاؤ رکھنے والے تھے۔ مومنؔ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اور پھر شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی نگرانی میں دیدیا گیا۔ پھر شاہ عبدالقادر سے بھی تحصیل علم کیا۔ مومنؔ کا حافظہ ایسا کمال کا تھا کہ درس سن کر بعینہٖ اسی طرح بیان کردیتے تھے۔ چنانچہ مومنؔ نے عربی اور فارسی کی مروجہ تعلیم کے علاوہ طبابت، نجوم و رمل، شطرنج، موسیقی اور تعویذ نویسی میں مہارت تامہ حاصل کی اور حاذق طبیب کے طور پر بھی جلد ہی شہرت حاصل کرلی لیکن طبابت کو بطور پیشہ نہیں اپنایا۔
مومنؔ ایک قناعت پسند انسان تھے اور تمام عمر آبائی جائیداد کی آمد پر گزارا کیا حتّی کہ بعض امراء کی پیشکش کو بھی اُن کی غیور اور آزاد منش طبیعت نے قبول نہ کیا۔ مومنؔ ایک پہلودار شخصیت تھے۔ عاشق مزاج، رند اور رنگین طبع تھے لیکن مذہب کا بھی گہرا رنگ تھا۔ 21؍مئی 1852ء کو مومن 52 برس کی عمر میں اپنے گھر کی چھت سے گر کر آنے والی ضربات کے نتیجہ میں فوت ہوگئے۔ مومنؔ کی سوانح اور شاعری کے بارہ مکرم راشد متین احمد صاحب کا ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جولائی 1999ء میں شامل اشاعت ہے۔
بحیثیت شاعر مومنؔ نے تمام اصنافِ شاعری پر طبع آزمائی کی ہے لیکن غزل کی صنف میں مومنؔ نے کمال کیا ہے۔ اُس کی غزل میں فلسفہ و تصوّف نہیں ملتا بلکہ صرف حسن و عشق کا بیان ہے۔ اس کی غزل میں نازک خیالی، معاملہ بندی، سوز و گداز کی کیفیات اور مضمون آفرینی دیگر شعراء سے نہایت اعلیٰ ہے۔ وہ اپنے ذاتی تجربات کو غزل میں سموتا ہے۔ اُس کی بلند خیالی، شدید احساس اور ذوق جمال نے اس کے تغزل میں چار چاند لگادیئے ہیں۔ مومنؔ نے اپنے تخلص کا استعمال جس خوبی سے کیا ہے شاید ہی کسی اور شاعر نے کیا ہو۔ اُس کے کلام سے چند خوبصورت اشعار ملاحظہ فرمائیں:-
اے تپ ہجر دیکھ مومنؔ ہیں
ہے حرام آگ کا عذاب ہمیں
شکوہ کرتا ہے بے نیازی کا
تُو نے مومنؔ بتوں کو کیا جانا
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہون گے
مومنؔ ایک قادرالکلام شاعر ہے، دیکھئے:-
کل تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے
ہے دوستی تو جانبِ دشمن نہ دیکھنا
جادو بھرا ہوا ہے تمہاری نگاہ میں
مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اٹھے وہ
بدنامیٔ عشاق کا اعزاز تو دیکھو
وصل میں احتمال شادی مرگ
چارہ گر درد لادوا ہے عشق
مومنؔ کی ایک اہم خصوصیت اُس کی معاملہ بندی ہے۔ وہ اس کا استعمال اس مہارت سے کرتا ہے کہ ایک طلسمی فضا پیدا ہو جاتی ہے ؎
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مومنؔ کے کلام میں وہ سب کچھ بدرجہ اتم موجود ہے جو کسی بڑے شاعر کے کلام میں ہونا چاہئے لیکن اُسے زمانہ کی ناقدرشناسی کا شکوہ رہا:-
ملے ہیں خاک میں کیا کیا مرے علوم و فنون
خدا کسی کو نہ دے ایسے طالع معکوس
ہم داد کے خواہاں ہیں نہیں طالب زر کچھ
تحسین سخن فہم ہے مومنؔ صلہ اپنا
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر یار کی
آخر کو دشمنی ہے دعا کو اثر کے ساتھ
ہنس ہنس کے وہ مجھ سے ہی مرے قتل کی باتیں
اس طرح سے کرتے ہیں کہ گویا نہ کریں گے
بیمار اجل چارہ کو گر حضرت عیسیٰ ؑ
اچھا بھی کریں گے تو کچھ اچھا نہ کریں گے
اثر اُس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا