مکرمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ اہلیہ حضرت ملک سیف الرحمن صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍اپریل 2004ء میں مکرمہ امۃ اللطیف زیروی صاحبہ اپنی والدہ محترمہ امۃالرشید شوکت صاحبہ اہلیہ حضرت ملک سیف الرحمن صاحب کا ذکر خیر کیا ہے۔
آپ 31؍جنوری 1999ء کو کیلگری (کینیڈا) میں وفات پاگئیں۔ آپ مئی 1920ء کو قادیان میں محترم منشی چراغ دین صاحب اور حضرت سارہ بیگم صاحبہؓ بنت حضرت میاں جمال الدین سیکھوانی ؓکے ہاں پیدا ہوئی تھیں۔ حضرت سارہ بیگمؓ ان صحابیات میں سے تھیں جنہوں نے ’’لوائے احمدیت‘‘ کے لئے سوت کاتا تھا۔
ابتدائی تعلیم قادیان کے دینی ماحول میں حاصل کی اور آغاز ہی سے سلسلہ کی خدمت کے لئے کمربستہ ہوگئیں۔ آٹھویں جماعت کے بعد حضرت مصلح موعود ؓ کی جاری فرمودہ دینیات کلاس کی پہلی فصل میں شامل ہوئیں اور اعزاز کے ساتھ کورس مکمل کیا۔ حضرت اماں جان ؓ نے کامیابی پر آپ کو میڈل عطا فرمایا۔
اکتوبر 1942ء میں آپ کا نکاح حضرت مصلح موعود ؓ نے محترم ملک سیف الرحمان صاحب مفتی سلسلہ سے پڑھایا۔ شادی کے بعد تعلیم وتدریس کا سلسلہ جاری رہا۔ ابا جان سے بھی حدیث، عربی اور قواعد صرف ونحو کی تعلیم حاصل کی اور میٹرک بھی کرلیا۔ پھر قریباً 18سال ماہنامہ ’’مصباح‘‘ کی مدیرہ رہیں، فضل عمر ماڈل سکول میں دینیات اور عربی کی ٹیچر رہیں، ہمیشہ سلسلہ کے کاموں میں مشغول رہیں۔آٹھ بچوں کی پرورش بھی کی۔
1949ء میں ہم ربوہ منتقل ہوگئے اور آغاز خیموں میں قیام سے ہوا۔ پھر کچے مکان بنے۔ طبیعت کی بے حد سادہ تھیں۔ میں 1960ء میں میٹرک کے بعد لاہور مزید تعلیم کے لئے چلی گئی تھی۔ اس وقت واقفین زندگی کے حالات بہت مشکل تھے۔ بمشکل گزارہ ہوتا تھا۔ عموماً دو جوڑے کپڑوں کے ہوتے، ایک سکول کے لئے اور ایک گھر کے لئے۔
خلافت سے انہیں والہانہ عشق تھا۔ حضورؒ بھی ان سے بہت شفقت کا سلوک فرمایا کرتے تھے۔ 7؍فروری 1999ء کی اردو کلاس میں حضورؒ نے ان کا بہت ہی پیارے رنگ میں ذکر فرمایا: میری امی سے ان کا بڑا تعلق تھا۔ امی ان کومیرے لئے دعا کے لئے بھی کہا کرتیں تھیں۔ کہتی ہیں میں تبھی سے دعا کرتی رہی ہوں۔ خلافت سے ان کو عشق تھا۔ قادیان میں ان ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سے ملنے گئیں۔ آپؓ نے فرمایا ۔ شوکت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم لندن میں کھڑی ہوکر برقعہ پہن کر تقریر کرو گی۔ اس وقت قادیان میں لندن کا وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ 31سال بعد خدا کی تقدیر حرکت میں آئی۔1977ء میں لندن گئیں تو پورے یوکے میں تقاریر کا سلسلہ شروع ہو گیا۔