مکرمہ بشریٰ منیر صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2 نومبر 2005ء میں مکرم منیرالدین احمد صاحب مربی سلسلہ اپنی اہلیہ محترمہ بشریٰ منیر صاحبہ بنت مکرم جی ایم صادق صاحب سابق افسر امانت تحریک جدید ربوہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہمارا نکاح 1957ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے پڑھا تھا جبکہ مَیں جامعۃالمبشرین کا طالب علم تھا۔ شادی جامعہ سے فراغت کے بعد 1959ء میں کراچی میں ہوئی۔ ایک سال بعد مجھے یوگنڈا (مشرقی افریقہ) جانے کا ارشاد ہوا۔ روانگی سے چند دن قبل اللہ تعالیٰ نے پہلی بیٹی عطا فرمائی۔ بہرحال کراچی سے بحری جہاز میں روانہ ہو کر 9دن میں ممباسہ پہنچا۔ یہاں پر مولانا عبدالکریم شرما صاحب مربی تھے۔ وہاں سے بذریعہ ٹرین نیروبی پہنچا جہاں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مشنری انچارج مقیم تھے۔ یوگنڈا کے شہر جنجہ میں ہفتہ عشرہ مقیم رہا پھر نیروبی بلا لیا گیا۔ ممباسہ میں بھی متعین رہا۔ تین سال بعد مرکز میں بلایا گیا تو میری بیوی (جو تین سال سے گوجرانوالہ میں تھی) ربوہ آگئی۔ ربوہ میں میری ڈیوٹی وکالت تبشیر میں لگائی گئی۔
اُس وقت یہ دستور تھا کہ اگر مربی تین سال تک اکیلا باہر رہا ہو تو واپس آکر تین سال تک فیملی کے ساتھ رہے پھر باہر بھجوایا جائے۔ اگر جلدی بھجوانا ہو تو فیملی ساتھ بھجوائی جائے۔ لیکن ایک سال کا عرصہ گزرنے پر مجھے احساس ہوا کہ بیرونی ممالک میں مربیان کی ضرورت ہے۔ تین سال یہاں بیٹھ کر کیا کرنا ہے۔ جب میں نے اپنی بیوی سے پوچھا تو اُس نے کہا کہ آپ بے شک چلے جائیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ چنانچہ میں نے تحریری طور پر پیشکش کر دی کہ میں تین سال سے پہلے بھی خدمت کے لئے جانے کو تیار ہوں خواہ فیملی کو ساتھ نہ بھی بھجوایا جائے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے دوسری بیٹی بھی عطا فرما دی۔
جب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالثؒ بنے تو حضورؒ نے ربوہ میں مقیم مربیان کا جائزہ لیا اور میرے متعلق فیصلہ فرمایا کہ مع فیملی کینیا بھجوایا جائے۔ چنانچہ روانگی سے پہلے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو حضورؒ نے پوچھا بچے کتنے ہیں۔ بتایا دو بیٹیاں ہیں۔ حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ افریقہ میں بیٹا دے گا۔ نیز میری بیوی سے حضورؒ نے فرمایا کہ تم بھی اپنی زندگی وقف کر دو۔ چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا۔
کراچی سے کینیا کے شہر ممباسہ بحری جہاز کے ذریعہ دس روز میں پہنچے۔ کسوموں میں ہماری تقرری ہوئی۔ ایک سال بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیٹا عطا فرمایاجسے ہم نے وقف کردیا۔ حضورؒ نے ظہیر احمد نام عطا کیا (حال مربی سلسلہ جنوبی افریقہ)۔ بعد ازاں دوسرا بیٹا عطا ہوا جسے قرآن کریم حفظ کرنے کی توفیق ملی۔
1972ء میں مرکز کے ارشاد پر ہم ربوہ آگئے۔ اس دوران میری نسبتی ہمشیرہ سات بچے چھوڑ کر وفات پاگئیں۔ میری اہلیہ نے ان بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی خاطر ربوہ میں رہائش اختیار کرلی۔ گو وہ بچے الگ مکان میں رہے مگر میری بیوی نے ان کی تربیت کا کام بطور خالہ کے نہایت عمدگی سے ادا کیا یہاں تک کہ سب اپنے گھروں میں آباد ہوگئے۔
مجھے ربوہ میں ایک سال صیغہ اشاعت قرآن میں خدمت کا موقعہ ملا پھر سویڈن میں تقرری ہوئی اور اکیلے ہی جانے کا حکم ہوا۔ بیوی ربوہ میں ہی بچوں کے ساتھ رہی۔ اُس وقت سویڈن میں کرائے کے مکان میں مشن ہاؤس تھا۔ 1973ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ تشریف لائے تو ہوٹل میں قیام فرمایا اور مسجد کے لئے زمین حاصل کرنے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ زمین حاصل کی گئی۔ نقشہ تیار ہونے پر حضورؒ نے 1975ء میں تشریف لا کر سنگ بنیاد رکھا اور 1976ء میں پایۂ تکمیل تک پہنچنے پر مسجد ناصر کا افتتاح بھی فرمایا۔ صد سالہ جوبلی فنڈ سے اس کی تعمیر ہوئی۔
پھر میری واپسی ہوئی اور لاہور (دہلی دروازہ کی مسجد) میں بطور مربی تقرری ہوئی۔ بچوں کی تعلیم کی خاطر بیوی ربوہ میں ہی رہی۔ پھر میری سویڈن میں تبدیلی ہوئی اور اکیلا ہی وہاں گیا۔ ناروے کی جماعت بھی سویڈن کے ساتھ ملحق تھی۔ اس دفعہ ناروے میں مسجد بنانے کا ارشاد ہوا۔ زمین نہ مل سکی۔ البتہ اوسلو میں ایک عمارت لے کر اسے حسب ضرورت مسجد کی شکل میں ڈھالا گیا۔ تیار ہونے پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 1980ء میں اس کا افتتاح فرمایا۔ اس کا نام مسجد بیت نور منظور فرمایا۔ یہ مسجد بھی صد سالہ جوبلی فنڈ سے ہی تعمیر کی گئی۔
پھر مجھے پاکستان جانے کا ارشاد ہوا اور لاہور (دارالذکر) میں بطور مربی تقرری ہوئی۔ تین سال یہاں اکیلے ہی گزارے۔ 1983ء میں بطور انچارج رشتہ ناطہ ربوہ میں تقرری ہوئی۔ میری غیر حاضری میں میری بیوی نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ لجنہ کے کاموں میں بھی بہت حصہ لیا۔ چنانچہ اُن کی وفات پر صدر لجنہ محترمہ صاحبزادی امۃ القدوس بیگم صاحبہ نے اپنی تعزیتی چٹھی میں بھی ان کی خدمات کا ذکر فرمایا۔ مرحومہ چندہ جات کی ادائیگی میں بڑی باقاعدہ تھیں۔ چندہ وصیت، چندہ لجنہ، چندہ تحریک جدید و وقف جدید سال کے ابتداء میں ادا کر دیتی تھیں۔ اپنی والدہ مرحومہ کی طرف سے بھی چندہ تحریک جدید ادا کرتی تھیں۔ مہمان نوازی تو گویا گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ رشتہ دار، ملنے ملانے والے اور رشتہ ناطہ کے سلسلے میں آنے والے مہمان غرض سب کی خدمت کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ ہمدرد ی خلائق کا خاص جذبہ رکھتی تھیں۔ جس سے بھی واسطہ پڑا، سب نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ محبت کرنے والی اور لوگوں کے کاموں میں ہاتھ بٹانے والی ہستی تھی۔ مجھے خدمت دین کے لئے گھر کے تمام فکروں سے بے نیاز کیا ہوا تھا۔
عبادت کی ادائیگی اور تلاوت کلام پاک کا بھی خاص اہتمام کرتی تھیں۔ لجنہ کے کورس کو خوب محنت کرکے یاد کرتیں۔ جلسہ قادیان میں شمولیت کی متعدد بار توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ نے قناعت کی صفت سے بھی نوازا تھا۔ مجھ سے کبھی شکایت نہ کی کہ آمد کم ہے۔ سلائی مشین کے ذریعہ کچھ آمد کا ذریعہ پیدا کر لیا تھا جو بچوں کی پڑھائی کے سلسلہ میں ممد ہوا۔ مرحومہ 22 مئی 2005ء کو 66برس کی عمر میں وفات پاگئیں۔