مکرمہ رضیہ اختر صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5 جنوری 2011ء میں مکرمہ ف۔انور ورک صاحبہ نے اپنی والدہ مکرمہ رضیہ اختر صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرمہ رضیہ اختر صاحبہ سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹ کرم بخش میں پیدا ہوئیں۔ آپ کی پیدائش بہت دعاؤں سے ہوئی تھی۔ اس سے قبل میرے نانا، نانی کے کافی بچے فوت ہوگئے تھے۔ پھر امّی کی پیدائش ہوئی تو نام تو ان کا رضیہ اختر رکھا گیا لیکن گاؤں کے لوگ انہیں (جیواں) یعنی زندہ رہنے والی کہہ کر پکارتے۔ تقریباً بیس سال کی عمر میں اپنے ماموں زاد سے شادی ہوئی۔ بچے بھی ہوئے۔ آپ گاؤں کے مڈل سکول میں معلمہ کے طور پر پڑھاتی رہیں۔ 35 سال بعد ریٹائرڈ ہوئیں۔
آپ بہت دعاگو تھیں اور نمازوں کی اتنی دلدادہ تھیں کہ وقت سے بہت پہلے نماز کی تیاری شروع کردیتیں۔ ہم نے ہمیشہ آپ کو تہجد اور اشراق پڑھتے دیکھا ۔ نماز کے لئے کھڑی بعد میں ہوتیں اور رقّت پہلے طاری ہوجاتی۔ یوں اپنے خدا سے راز ونیاز کرتیں کہ پتہ ہی نہ چلتا کہ کتنی دیر سے جائے نماز پر کھڑی ہیں۔ آپ کی ایک آنکھ کی نظر تو جوانی میں ہی ضائع ہوگئی تھی اور دوسری آنکھ بھی کافی کمزور تھی لیکن اس کے باوجود روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتیں اور الفضل کا مطالعہ کرتیں۔
آپ لمبا عرصہ گاؤں میں صدر لجنہ رہیں۔ دعوت الی اللہ کا ایک جنون تھا جس کے لئے قریبی دیہات میں بھی جایا کرتیں۔ اس کے نتیجہ میں کئی پھل حاصل ہوئے۔ بچوں کو ہمیشہ دینی خدمت کرنے کی تلقین کرتیں۔ ایک بار مَیں نے ایک دنیاوی کام شروع کیا تو اسی دن شام کو امّی کا فون آگیا کہ دنیاوی کاموں میں اتنا مصروف نہ ہوجانا کہ جماعتی کام پسِ پُشت چلے جائیں ۔
خلفاء احمدیت سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی۔ دعا کے لئے کثرت سے انہیں لکھتیں۔ قادیان جلسہ پر جانے کی خواہش بھی اللہ نے پوری کی۔ خدمت خلق کا بے انتہا جذبہ تھا۔ ہررمضان میں چند نئے کپڑے غرباء میں تقسیم کردیتیں۔ موصیہ تھیں۔ انتہائی بھرپور زندگی گزار کر 13مئی 2010ء کو بوقت مغرب وضو کرکے بیٹھی ہی تھیں کہ وفات پاگئیں۔ عمر قریباً 71 برس تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں