مکرمہ زینب بی بی صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍اپریل 2008ء میں مکرمہ ن۔ جہاں صاحبہ نے اپنی والدہ محترمہ زینب بی بی صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترمہ زینب بی بی صاحبہ 1904ء میں حضرت نظام الدین صاحبؓ (بیعت 1907ء) کے ہاں پیدا ہوئیں۔ جلد ہی والدہ کی وفات ہوگئی اور آپ کی پرورش آپ کی دادی نے کی۔ 1920ء میں آپ کی شادی محترم غلام حسین صاحب سابق صدر جماعت احمدیہ رسالپور کے ساتھ ہوئی جن کا تعلق ترگڑی ضلع گوجرانوالہ سے تھا اور وہ 1912ء میں جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے تھے۔ بہت صبر و شکر کے ساتھ بارہ بچوں کی پرورش کی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کی تحریک پر قادیان ہجرت کرگئے اور قادیان کے محلہ دارالبرکات میں سٹیشن کے سامنے والد صاحب ان کے بھائیوں نے اور دادا جان نے تقریباً 7 مکان ساتھ ساتھ بنائے۔
محترمہ زینب بی بی صاحبہ بہت پڑھی لکھی نہ تھیں مگر قرآن پاک اور اردو پڑھ لیتیں۔ جب بھی وقت ملتا تلاوت کرتیں۔ رمضان اور شوال کے روزے آخر تک رکھے۔ نمازیں باقاعدگی سے وقت پر ادا کرتیں۔ اشراق اور چاشت کے نوافل بھی ہمیشہ ادا کرتے دیکھا۔ رات کے وقت جب بھی آنکھ کھلی تو آپ کو سجدہ ریز پایا۔ عام لوگوں کی بھی نہایت ہمدرد اور اُن کی تکالیف پر رو رو کر دعا کرنے والی طبیعت تھی۔ خلفاء اور سلسلہ کے ساتھ بہت محبت تھی۔ مسجد مبارک ربوہ میں کئی بار اعتکاف بیٹھیں۔ جلسہ پر جانے کے لئے ہر ماہ رقم پس انداز کرتیں۔ قادیان میں گھر بنایا تو مہمانوں کی خدمت جی جان سے کرتی رہیں۔ آپ بہترین ماں، وفاشعار بیوی، ہمدرد ساس اور بہترین ہمسایہ تھیں۔ آپکے ہمسائے آپ کو ’’بھاگوان‘‘ کہتے تھے۔ چنانچہ 1953ء کے فسادات میں جب مخالفین کے ایک گروپ کو آپ کا گھر جلانے کی ذمہ داری ملی تو آپ کے ایک ہمسایہ نے یہ کہہ کر شدید مخالفت کی کہ اس نیک عورت کے میرے پر بہت احسانات ہیں میری بیوی درد زہ میں تڑپ رہی تھی پورے محلہ سے یہی وہ عورت تھی جس نے میری بیوی کی ایسے وقت میں مدد کی۔ میں ان کو نقصان پہنچانے کی کسی کارروائی میں آپ کا ساتھ نہیں دوں گا۔ اور مخالفین پر کچھ اس طرح سے رعب پڑتا ہے کہ انہیں گھر کی طرف آنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ آپ نے نہ صرف اپنے بچوں کو بلکہ بہت سے غیراحمدی بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھایا۔
76سال کی عمر میں29جنوری 1982ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔