مکرمہ سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍جنوری2008ء میں مکرمہ امۃالباسط ایاز صاحب نے ایک مضمون میں اپنی والدہ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرمہ سعیدہ بیگم صاحبہ 4؍اپریل 1912ء کو سرگودھامیں پیدا ہوئیں اور 18 سال کی عمر میں آپ کی شادی ہوئی۔ شادی کے چھ ماہ بعد حضرت مولوی صاحب بلاد عربیہ بغرض تبلیغ بھجوائے گئے جہاں سے پانچ سال کے بعد واپسی ہوئی۔

مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ میری دادی کی وفات ہوئی تو گھر کی تمام ذمہ داری میری والدہ پر آن پڑی۔ دو چچا اور دو پھوپھیاں بھی ساتھ تھے۔ اُن کی شادیاں بھی میری والدہ نے ہی کیں۔ قیام پاکستان کے بعد میری ایک بہن بہت بیمار ہوگئی اور آخر انتقال کرگئی۔ اُس وقت ہم احمدنگر میں تھے جہاں اباجان جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے۔ امّی نے اڑہائی سالہ بچی کی وفات کے بعد گھر کے صحن میں خود ہی اس کو غسل دے کر اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر کہا کہ ’’لیں اللہ میاں کی امانت اس کے سپرد کر آئیں‘‘ نہ آنکھوں میں آنسو نہ آواز نہ چیخ و پکار بلکہ صبر و رضا کی اس دیوی نے مجھے بھی گلے لگالیا کہ تم مت رو، اللہ تمہیں اَور بہن دے گا اور اُدھر اباجان اس کو لے کر گھر سے باہر چلے گئے۔
امی جان بہت قانع، شکرگزار، کفایت شعار اور سلیقہ شعار تھیں۔ صاف دل صاف گو اور کوئی لالچ نہ تھا۔ بچوں کا ہر طرح سے خیال رکھنے کے ساتھ اباجان کی بہت خدمت کی۔ اباجان کو گرمیوں میں اکثر Heat Stroke ہو جایا کرتا تھا جبکہ وہ ظہر اور عصر کی نماز پڑھنے مسجد ضرور جایا کرتے تھے خواہ شدید گرمی کیوں نہ ہو۔ کسی نے علاج بتایا کہ گاجروں کے ستو باہرسے گھر آنے پر برف ڈال کر شہد ملا کر پلایا کریں تو امی جان گاجروں کو بڑی مقدار میں خریدکر ہم بچوں کو ان گاجروں کو کدوکش کرنے کے لئے بڑی بڑی پراتوں میں ڈال کر دیتیں۔ پھر اُن کو تیز دھوپ میں رکھ کر مکھیوں سے بچانے کے لئے ململ کے باریک اور صاف کپڑوں سے ڈھانک دیتیں۔ رات کو اندر لے جاتیں اور صبح کوپھر باہر رکھ کر مسلسل کئی کئی دن کی تیز دھوپ میں سوکھنے کے بعد اس کو مسل کر باریک پوڈر کو بوتلوں میں بند کر کے رکھ لیتیں۔ یہ نسخہ بہت مفید پایا۔
سادہ طبیعت تھی۔ گھر کے سارے کام (برتن مانجھنے سے لحاف نگندنے تک) اپنے ہاتھ سے کرتیں۔ کپڑے، بٹوے، ٹوکریاں بنانا بھی ہمیں سکھاتیں۔ مزاج میں ذرا بھی سختی نہ تھی مگر ایسا نہیں کہ ہم بگڑ جائیں۔ بلکہ اپنے عمل سے کئی سبق دیا کرتیں۔ اباجان جب سفر پر جاتے تو کچھ رقم گھر کے خرچ کے لئے دے جاتے اور کہہ کر جاتے کہ اللہ برکت ڈالے گا کمی نہ ہوگی۔ کبھی ہم میں سے کوئی بہن بھائی بیمار اور بخار میں بے ہوش بھی پڑا ہوتا مگر اللہ کے حوالے کرکے چلے جاتے۔ بس اللہ پر توکل کرنے والوں پر اللہ کا فضل اور پھر دعائیں ساتھ ہوتی تھیں۔ امی جان کی بیشمار خوبیوں کے علاوہ تقویٰ میں جو امتیاز تھا وہ ان کا پردہ تھا۔ جرابیں اور بند بُوٹ پہن کر گھر سے نکلتیں کہ پاؤں کا بھی پردہ ہوتا ہے۔ ایک اجتماع پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے میری بیٹی سے کہا کہ سارے ہال میں دیکھو اور بتاؤ کہ سب سے اچھا پردہ کس کا ہے؟ اُس نے کہا کہ حضور مجھے تو پتہ نہیں۔ آپؓ نے فرمایا: تمہاری بڑی امی جان کا۔
سارے بچوں کے رشتے طے کرنا اور فیصلے کرنا ہمارے اباجان کا ہی کام تھا، نہ کسی کے ہاں لڑکی دیکھنے گئیں نہ لڑکا بس گھر پر ہی اباجان کے استخارہ پر ہی تسلی پالیتی تھیں اور کبھی جہیز کا مطالبہ نہ کیا بلکہ اس کا ذکر بھی ہمارے گھر میں پسندیدہ نہ سمجھا جاتا تھا۔
امّی جان کی شادی کے وقت اُن کے پاس کافی زیور تھا۔ آپ نے بتایا کہ آپ نے ایک ایک کرکے اپنے تمام زیور اباجان کو ان کی بہنوں، بھائیوں اور بچوں کی شادی کے مواقع پر بڑی خوشی سے دیئے ہیں تاکہ ان کو قرض بھی نہ لینا پڑے اور فرض بھی ادا ہوجائے۔
آپ نے خود بھی کئی بچوں کو قرآن مجید پڑھایا آداب و اطوار سکھانے کا خاص ملکہ تھا۔ احمد نگر میں کوئی سکول یا مدرسہ نہ تھا۔ آپ اپنے بچوں سمیت گاؤں کے بچوں کو بھی قرآن مجید، نماز اور احادیث وغیرہ سکھانے کے لئے اپنے گھر پر ہی کلاس لگاتیں۔ پھر اباجان سے کہہ کر ایک کھلے میدان کو صاف کرواکر، چاردیواری بنوائی جس میں لڑکیوں کے لئے سکول شروع کیا۔ پھر یہ سکول حکومت سے منظور ہوا اور اب ایک ہائی سکول بن چکا ہے۔
خلافت سے گہری دلی وابستگی تھی۔ چندہ بہت فراخ دلی سے ہر مد میں دیتیں۔ جب پاکستان میں زلزلہ آیا تو ہمیں اُس سال عیدی نہ دی اور بتایا کہ آپ نے ساری رقم متأثرین زلزلہ کو بھجوادی ہے۔ وصیت بھی 1/8 حصہ کی تھی۔ مانگنے والوں کو کبھی خالی ہاتھ نہ جانے دیتیں مگر صحت مند ماؤں کے ساتھ جب چھوٹے بچوں کو ہاتھ پھیلا کر مانگتے دیکھتیں تو خیرات بھی دیتیں اور کہتیں کہ تم محنت کرو اور خود کماؤ بچوں کو یہ مانگنے کی عادت نہ ڈالو، آؤ میں تمہیں کام دیتی ہوں۔ پھر اُن سے صحن کی صفائی وغیرہ کروا کر اُن کو کچھ رقم دے دیتیں۔
آخری علالت کا عرصہ بڑے صبر اور شکر اور ذکر الٰہی کرتے ہوئے گزارا۔ باربار پوچھا کرتی تھیں کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ ایک روز مجھے کہنے لگیں کہ تمہارے اباجان آئے ہیں۔ پھر مَیں نے نماز کا پوچھا تو کہا کہ ’’حضور آکر نماز پڑھائیں گے‘‘۔ حضور انور اُس وقت سفر پر تھے اور دو ہفتے بعد آنا تھا۔ چنانچہ جب حضور انور سفر سے واپس آئے تو اگلے روز ان کی وفات ہوئی اور حضور نے نماز جنازہ پڑھائی اور جمعہ کے خطبہ میں ان کا ذکر خیر کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں