مکرمہ سلمیٰ بیگم صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جنوری 2003ء میں مکرم چودھری شبیر احمد صاحب اپنی اہلیہ محترمہ سلمیٰ بیگم صاحبہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ آپ میرے چچا محترم سردار عبدالحمید صاحبؓ کی بیٹی تھیں۔ انہوں نے تربیت کی خاطر لمبا عرصہ بچوں کو قادیان میں رکھا۔ آپ 1945ء میں میرے عقد میں آئیں جبکہ خاکسار ملٹری اکاؤنٹس میں ملازم تھا۔ 1950ء میں میرے ارادہ وقف زندگی پر انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور یہ عہد زندگی بھر نبھاکر 14؍جون 2001ء کو وفات پائی۔
آپ کو قرآن کریم سے بڑا لگاؤ تھا۔ بچوں کی دنیوی تعلیم کے لئے اتنا فکرمند نہ رہیں جتنا دینی تعلیم اور قرآن مجید کی تعلیم کے لئے فکرمند رہیں۔ ہر وقت دعا کی طرف توجہ رہتی۔ مجھے اکثر جماعتی دوروں پر یا کسی سفر کے لئے ربوہ سے باہر جانا ہوتاتو سب اہل خانہ کو جمع کرکے اجتماعی دعا کرواتیں اور پھر مجھے رخصت کرتیں۔ کئی بار ابتلاء آیا لیکن ثابت قدم رہیں۔ ایک بار غلط فہمی سے دفتر کی ہزاروں روپے کی رقم میرے ذمہ نکل آئی تو آپ نے اپنا سارا زیور جمع کروادیا۔ بعد میں کمیشن کی تحقیقات کے نتیجہ میں صورتحال واضح ہوئی تو زیور آپ کو واپس مل گیا۔ آپ نے اپنے ایک بیٹے مکرم ظفر احمد سرور صاحب کو جامعہ میں داخل کروایا اور قدم قدم پر اُس کی ہمت بندھاتی رہیں۔
1951ء میں میرے والد محترم حافظ عبدالعزیز صاحب کی وفات کے بعد میرے خاندان کے چار افراد میرے پاس ربوہ آگئے۔ میرا قیام ایک کوارٹر میں تھا، الاؤنس محدود تھا، چار بچے بھی تھے۔ اس طرح دس افراد کی کفالت کی ذمہ داری مجھ پر آگئی لیکن آپ نے کبھی شکایت نہیں کی اور ہر قسم کی تنگی بطَیب خاطر برداشت کی۔ جب مَیں نے وقف کیا تو میری آمد 300 روپے سے یکدم 90 روپے پر آگئی۔ آپ نے کبھی اس کا شکوہ نہ کیا بلکہ بعض غیرضروری اخراجات فوراً بند کردیئے۔ مثلاً ہم پان کھایا کرتے تھے اور کچھ اخبارات و رسائل لگوائے ہوئے تھے نیز کھانے کے اخراجات بھی بہت کم کردیئے۔
آپ کھانا کچھ زائد پکایا کرتی تھیں تاکہ کسی غریب کے کام آجائے۔ ہومیو طریق علاج سے بھی دلچسپی تھی۔ غریبوں کا بہت خیال رکھتیں۔ ایک مرتبہ ایک کارکن کو دفتری معاملہ میں مَیں نے آپ کے سامنے جھڑک دیا تو بعد میں آپ نے مجھے توجہ دلائی کہ ماتحتوں اور غریبوں کے ساتھ ہمیشہ نرمی سے پیش آنا چاہئے۔
آپ نے بچپن میں ہی وصیت کرنے کی توفیق پائی۔ تحریک جدید میں بھی دفتر اوّل کی مجاہدہ تھیں۔ بہت صابر و شاکر تھیں۔ آپ کے آخری دس سال بستر علالت پر گزرے۔ گویائی بھی ختم ہوگئی تھی لیکن کبھی اشارۃً بھی شکوہ نہیں کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں