مکرمہ عنایت بیگم صاحبہ (زو جہ مکرم بشیر احمد چغتائی صاحب)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍فروری 2010ء میں مکرمہ س۔رفیق صاحبہ کے قلم سے اُن کے والدین کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
میرے والد مکرم بشیر احمد چغتائی صاحب 1910ء میں اور میری والدہ 1911ء میں پیدا ہوئیں۔ آپ دونوں فدائی احمدی اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے بے انتہا محبت کرنے والے تھے۔ دونوں بہت عبادت گزار تھے۔ میری والدہ کو بچپن سے ہی نماز باجماعت کا بہت شوق تھا۔ آپ بتایا کرتی تھیں کہ جب مسجد سے نماز باجماعت کی آواز سنائی دیتی تو آپ بھی گھر کی چھت پر جائے نماز بچھا کر نماز ادا کرلیتیں اور باجماعت نمازادا کرنے کی یہ تڑپ اور لگن تاوفات قائم رہی۔ امی جان نے قرآن پاک پڑھ لینے کے بعد سب سے پہلے اپنی والدہ ماجدہ کو قرآن پاک پڑھایا اور تاحیات قرآن پاک کی تدریس کا سلسلہ جاری رہا اور بے شمار بچوں اور بڑوں کو آپ نے اس پاک کتاب کی تعلیم دی۔
میرے والدین اپنے خاندان میں اکیلے احمدی ہوئے۔ میرے والد صاحب کی حضرت ملک عبدالرحمن صاحب خادم (خالد احمدیت) سے بہت دوستی تھی۔ دونوں گجرات کے رہنے والے تھے۔ ان کی تبلیغ سے آپ نے احمدیت قبول کی۔ جب والد صاحب نے احمدیت قبول کی، ان دنوں آپ ٹاٹانگر جمشیدپور سٹیل مل میں کام کرتے تھے اور والدہ صاحبہ راولپنڈی اپنے میکے آئی ہوئی تھیں۔ میرے نانا اور ماموؤں کو اس بات کا علم ہوا کہ ان کے داماد نے احمدیت قبول کر لی ہے تو والدہ مرحومہ کو حکم د یا کہ اب تم اِدھر ہی رہوگی اور بشیر سے تمہارا نکاح ختم ہوگیا۔ لیکن سب گھر والوں کی مخالفت کے باوجود والدہ صاحبہ نے کہا کہ وہ ایک دفعہ اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہیں تاکہ وہ دیکھیں کہ ان میں ایسی کیا خرابی پیدا ہو گئی ہے کہ جس کی وجہ سے لوگ انہیں کافر کہہ رہے ہیں۔ آپ بتاتی تھیں کہ میں چپکے چپکے تمہارے والد صاحب کا جائزہ لیتی رہی اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ میرے شوہر پہلے سے زیادہ عبادت گزار بن گئے ہیں۔
والدہ صاحبہ پرائمری پاس تھیں۔ والد صاحب کے دفتر جانے کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ کرتیں اور احمدیوں کے مطبوعہ قرآن مجید اور اس کے ترجمے کا دوسروں کے مطبوعہ نسخے سے موازنہ کرتیں لیکن کوئی بھی خلاف دین بات نظر نہ آتی۔ چنانچہ قریباً ایک سال بعد والدہ محترمہ نے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو بیعت کا خط لکھ دیا۔ اس وقت آپ کی شادی کو چھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن آپ اولاد کی نعمت سے محروم تھیں۔ خدا کی شان کہ بیعت کرنے کے ایک سال بعد ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد سے نوازنا شروع کردیا اور کُل چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں عطا کیں۔ سب بچوں کے نام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے رکھے۔
آپ کا ایک بیٹا بچپن میں ہی فوت ہوگیا اور ایک دوسرا 16سال کی عمر میں راول ڈیم میں ڈوب کر فوت ہوا۔ ان صدمات پر آپ نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا۔
والدہ محترمہ کا خاندان آپ کا سخت مخالف رہا۔ پہلے وہ یہ طعنہ دیتے تھے کہ دیکھیں گے کہ تم اپنی پانچ بیٹیوں کا بیاہ کیسے کرپاؤگی۔ لیکن پھر یہ دیکھ کر کہ ہم بچوں کی شادیاں احمدیوں میں ہی ہو رہی ہیں، انتہائی مخالفت شروع کر دی اور بالکل قطع تعلق کر دیا۔ جیسے جیسے خاندان کی مخالفت بڑھتی گئی ویسے ویسے آپ کا جماعت سے تعلق اور محبت بھی بڑھتا گیا۔
1939ء میں خلافت جوبلی کے موقعہ پر آپ کو پہلی بار قادیان جانے اور حضرت مصلح موعودؓ کی زیارت کرنے کا موقع ملا۔ پھر جب بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ملاقات ہوتی، حضور والدہ صاحبہ سے ان کے خاندان کی مخالفت کے بارہ میں ضرور پوچھتے۔
خاندان مسیح موعودؑ کے گھروں میں ہمیں بھی ہمراہ لے جاتیں۔ حضرت ناصرہ بیگم صاحبہ نے مجھے بتایا کہ تم چھوٹی سی تھیں جب اپنی والدہ کا برقع پکڑے آیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ بی بی امۃ الرشید بیگم صاحبہ بتانے لگیں کہ میں تمہاری والدہ کے اخلاص اور خاندان مسیح موعود سے عقیدت کو دیکھ کر یہ سمجھتی تھی کہ شاید وہ کسی صحابی کی اولاد ہیں لیکن یہ معلوم کرکے کہ وہ نومبائع تھیں مجھے بہت حیرت اور خوشی ہوئی۔
میری والدہ کو پہلے ٹاٹانگر میں لجنہ کی جنرل سیکرٹری کے طور پر لمبا عرصہ خدمت کا موقع ملا۔ 1955ء میں جب والد صاحب نے واہ کینٹ میں نوکری شروع کی تو اس وقت وہاں خال خال احمدی تھے۔ میری والدہ نے وہاں کی احمدی مستورات کو اکٹھا کیا اور جب انتخاب ہوا تو سب نے آپ کو صدر لجنہ چن لیا۔ آپ نے اپنی بھرپور توجہ اور لگن سے ایک مضبوط لجنہ قائم کی۔ میرے والد محترم بشیر احمد چغتائی صاحب صدر جماعت تھے۔ اس وجہ سے مربیان اور دیگر مرکزی نمائندے اکثر ہمارے ہاں آتے اور قیام کرتے۔ میرے والدین اُن کی بہت خدمت کرتے اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے۔
میرے والد کی وفات 1971ء میں ہوئی۔ آپ موصی تھے۔ اس کے بعد والدہ صاحبہ نے 22 سال تک بیوگی کا دور صبر اور حوصلے سے کاٹا۔ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی شادیاں بھی کیں۔ 24؍ اکتوبر 1993ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ وفات سے کچھ دن پہلے خواب میں دیکھا کہ خاندان حضرت اقدس کی بزرگ خواتین زرق برق جوڑے پہنے آئی ہیں اور کہتی ہیں ’’چلو عنایت تمہیں لینے آئے ہیں‘‘۔ آپ بھی موصیہ تھیں۔