مکرمہ نسیمہ رحمن دہلوی صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍جولائی 2008ء میں مکرم فضل الرحمن عامر صاحب کے قلم سے اُن کی والدہ محترمہ نسیمہ رحمن دہلوی صاحبہ اہلیہ مکرم عبدالرحمن صاحب دہلوی کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
محترمہ نسیمہ رحمن صاحبہ نے قریباً 16سال کی عمر میں تن تنہا اترپردیش سے قادیان تک کا طویل سفر محض احمدیت قبول کرنے کے واسطے اختیار کیا جبکہ آپ کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ قادیان کدھر ہے۔ آپ بیان فرماتی ہیں کہ ہمارے جد امجد راجہ داہر کے خاندان سے تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ رئیس ہونے کی وجہ سے اثر و رسوخ کے مالک تھے۔ جب ہندو بھی ہمارے محلہ سے بارات یا کسی اور موقعہ پر بینڈ باجے بجاتے ہوئے نکلتے تو ہماری مسجد کے سامنے پہنچ کر احتراماً باجا بجانا بند کر دیتے تھے، خاص طور پر نماز کے وقت احترام روا رکھتے۔ میرے والد صاحب سخت طبیعت کے مالک تھے اور سارا محلہ ان سے ڈرتا تھا۔ میری والدہ صاحبہ وہابی عقیدہ رکھتی تھیں۔ نماز روزہ کی پابند، مخیر و نیک خاتون تھیں۔ گھر میں کوئی شرک و بدعت کی بات نہ تھی۔ نذر نیاز کا کھانا، عاشورہ محرم کا دیکھنا سب منع تھا۔ میں نے آٹھ سال کی عمر سے پانچوں وقت کی نماز پابندی سے پڑھنا شروع کی۔ نو سال کی عمر سے سارے روزے رکھنے لگی۔ بلاناغہ قرآن شریف کی تلاوت کرتی۔ جب نو سال کی ہوئی تو باقاعدہ پردہ شروع کر دیا۔
میری پھوپھی کے چار بیٹوں میں سے تین احمدی ہوگئے تھے۔ اُن میں سے ایک ممتاز علی خانصاحب کی چھوٹی بیٹی میری ہم عمر تھیں اور میرا ان کے پاس ہر وقت کا آنا جانا تھا۔ ان کے گھر میں الفضل، بدر، مصباح، اور احمدیت کی دیگر کتب وغیرہ ہوتی تھیں۔ میرے بھائی متمول تھے اور مربیان کو بلاکر اپنے یہاں جلسے بھی کرواتے۔ غرض بچپن سے دل میں احمدیت کی تعلیم راسخ ہوتی گئی اور یہ تناور درخت بن گیا۔
میں چودہ سال کی تھی جب خلافت کی سلور جوبلی کے بارہ میں مضمون شائع ہونے لگے۔ میرے دل میں بھی قادیان جانے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ اس بات کا تذکرہ میں نے اپنے بھائی سے کیا مگر آپ نے کہا کہ اگر میرے ابّا کو پتہ چلا تو سخت ناراض ہوں گے۔ میں خاموش ہو گئی مگر رو رو کر دعائیں کرتی رہی۔ 21دسمبر کی رات بھائی جانے لگے تو مَیں نے دوبارہ ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی۔ مگر وہ کہنے لگے کہ تمہارے ابّا تمہارے ساتھ ساتھ مجھ پر بھی سخت ناراض ہوں گے، تم مجھے بیعت کا خط لکھ کر دیدو۔ میں نے خط تو لکھ دیا مگر گھر آکر خوب روئی۔ پھر اپنی ایک سہیلی کو رازدار بنایا تو وہ اور اُس کا بھائی مجھے لکھنؤ لے آئے۔ امرتسر کے لئے ایکسپریس چھوٹ چکی تھی اس لئے انہوں نے پسنجرٹرین کا لاہور کا ٹکٹ لے کر مجھے بٹھا دیا۔ تنہا لمبا سفر، والدین کی جدائی سے بڑھ کر ان کی ناراضگی کی فکر، یہ پریشانی بھی تھی کہ جلسہ شروع ہو گیاہو گا، میں کب اور کس طرح قادیان پہنچوںگی۔
سفر کے تیسرے دن عصر کی نماز پڑھی اور رو رو کر دعائیں مانگیں۔ پھر ایک ہندو عورت جو لیٹی ہوئی تھی اُس سے بیٹھنے کے لئے ذرا سی جگہ مانگی تو وہ لڑنے لگی۔ سامنے کی سیٹ پر ایک بزرگ بیٹھے تھے کہنے لگے کہ تمہیں نماز پڑھتے دیکھ کر مجھے بہت رشک ہوا، تم کہاں جا رہی ہو؟ میںبہت جوش سے بولی: قادیان جارہی ہوں جہاں ہمارا جلسہ سالانہ ہو رہا ہے۔ یہ بزرگ ڈاکٹر محمد عبداللہ خانصاحب کوئٹہ والوں کے چھوٹے بھائی رحیم اللہ خانصاحب تھے جو کسی وجہ سے لیٹ ہو گئے تھے۔ کہنے لگے کہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ میں بولی کوئی نہیں ۔ کہنے لگے سٹیشن پر کوئی لینے آئے گا؟ میں بولی: نہیں۔ کہنے لگے وہاں کہاں ٹھہرو گی؟ میں خاموش رہی۔ پھر ساری کیفیت اُن کو سنا دی۔ وہ سخت حیرت زدہ ہوئے۔ پوچھا کہ ٹکٹ ہے؟ میں نے ٹکٹ دکھایا تو کہنے لگے کہ یہ تو لاہور کا ہے، کیا تم پہلے لاہور جائو گی؟ میں بولی نہیں میں تو قادیان جوبلی کا جلسہ دیکھنے اور احمدیت قبول کرنے جا رہی ہوں۔ پھر وہ مجھے لے کر امرتسر سٹیشن پر اُترے اور میرے لئے ٹکٹ خریدا۔ ہم دونوں بٹالہ سے گاڑی بدل کر رات کو قادیان پہنچے اور مجھے بھی اپنے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے گھر لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کی بیوی اور بیٹیاں بہت خندہ پیشانی سے پیش آئیں۔کھانا اور چائے وغیرہ کے بعد سب لڑکیاں ایک کمرہ میں سوگئیں۔
اگلی صبح ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ مجھے جلسہ گاہ لے گئیں اور سٹیج پر حضرت سیدہ امّ طاہرؒ کے حوالے کرکے بتایا کہ یہ لڑکی اپنے والدین سے چھپ کر لکھنؤ سے احمدی ہونے اور جلسہ جوبلی دیکھنے آئی ہے۔ حضرت آپا جانؒ نے مجھے پاس بٹھالیا اور بہت پیار سے میرے حالات پوچھے۔ میں دن بھر سٹیج پر جلسہ کی کارروائی سنتی رہی، کھانا بھی وہیں کھایا اور رات کو صاحبزادیوں کے ساتھ انہوں نے کار میں مجھے گھر بھیج دیا۔ گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ جب حضرت آپا جان کی طرف حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تشریف لائے تو میری ملاقات حضورؓ سے کروائی۔ اگلے روز مَیں نے حضرت میاں طاہر احمد صاحبؒ سے، جو دس گیارہ سال کے بچہ تھے، ڈاک کے دو لفافے منگوائے ۔ ایک لفافہ گھرا ور ایک اپنی سہیلی کو لکھا۔ ایک ہفتہ کے بعد میری والدہ کا خط آیا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ جب تک تمہارا خط نہیں ملا تھا ہم سب بہت پریشان تھے۔
احمدیت جیسی نعمت میرے لئے ہفت اقلیم کی بادشاہت سے کسی طرح کم نہیں تھی۔ حضورؓ کے گھر میں رہتی تھی اور حضرت آپا جان میرا ہر طرح کا خیال فرماتیں۔ جلسہ کے بعد کئی بزرگ ملنے آئے۔ بعض نے میرے والد کو مبارکباد کے خطوط لکھے اور لکھا کہ دین سیکھنے کے لئے اپنی بیٹی کو قادیان میں رہنے دیں۔ پھر میرے والد صاحب مجھے لینے آئے کہ ابھی میں اسے اپنے گھر لے جائوں گا تا کہ وہاں لوگوں کو یقین آ جائے کہ یہ قادیان احمدی ہونے گئی تھی۔ قادیان سے واپسی کے وقت میرے والد صاحب سے قول لیا گیا کہ وہ لڑکی کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دیں گے اور جلد ہی اسے دین کا علم سیکھنے قادیان بھیج دیں گے۔ والد صاحب نے وعدہ کیا اور نبھایا۔
جب والد صاحب قادیان پہنچے تو حضورؓ کے ارشاد پر آپ کو سارے قادیان کی سیر کرائی گئی اور بزرگان سے ملایا گیا۔ وہ یہاں کے حسن انتظام اور پنجوقتہ باجماعت نماز کی پابندی سے بہت خوش ہوئے۔ پھر جب ہم جانے لگے تو اہل قادیان نے سٹیشن پر جمع ہو کر اجتماعی دعائوں کے ساتھ مجھے اس حال میں رخصت کیا کہ میرے محسنوں کے بھی آنسو رواں تھے اور میرا بھی رو رو کر برا حا ل تھا۔ بہت سی بہنوں اور بھائیوں نے انمول تحائف سے اس عاجزہ کو نوازا جیسے حضرت مسیح موعودؑ کے ریش مبارک کے بال، کتب اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا میز پوش وغیرہ۔
مضمون نگار (آپ کے بیٹے) رقمطراز ہیں کہ ہم پانچ بہن بھائیوں کی والدہ محترمہ نے نہایت ہی احسن رنگ میں تربیت فرمائی اور بچپن ہی سے نماز، روزہ اور چندہ کی عادت ڈالی۔ آپ صاحب رؤیا اور کشوف بزرگ تھیں۔ کئی بار ابتلاء آنے سے قبل ہی صدقہ دلوا دیتیں اور بعد میں ہمیں معلوم ہوتا کہ کتنی بڑی پریشانی سے ہم بچ گئے ہیں۔ بتایا کرتی تھیں کہ میںنے خداتعالیٰ کی تجلی یوں دیکھی ہے کہ ایک د فعہ راولپنڈی میںبڑی تیز بارش ہو رہی تھی۔ میں برآمدے میں چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی۔ مغرب کا وقت تھا اور گہرے بادلوں کی وجہ سے سخت گہرا اندھیرا ہو گیا تھا۔ اچانک آسمان سے زمین تک سفید نور کی چادر بچھ گئی اور اس میں موٹے موٹے حروف میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھا ہوا نظر آیا۔ اس نور کی وجہ سے خوب روشنی ہو گئی اور بڑے زور سے آواز آئی کہ یہ خداتعالیٰ کی تجلی ظاہر ہو رہی ہے، دعا کرلو۔
1958ء میں ہمارے والد آرمی سے ریٹائر ہوکر ربوہ منتقل ہو گئے۔ میری والدہ بتاتی تھیں کہ انہی دنوں تم بہن بھائی کمرہ میں کھیل رہے تھے کہ اچانک بہت زور سے بجلی کڑکی اور آگ کا ایک گولہ کمرے کی پچھلی کھڑکی سے کمرے میں داخل ہوا اور تم بچوں کو چھوتا ہوا سامنے والی کھڑکی سے باہر نکل کر سامنے پہاڑی سے ٹکرا کر پھٹ گیا ۔ کمرہ میں بالوں کے جلنے کی بو پھیل گئی۔ میں نے بھاگ کر تم بچوں کو دیکھا تو صرف سب سے بڑے بیٹے کے سر کے بال کچھ جل گئے تھے اور باقی کسی کو کوئی گزند تک نہ پہنچی تھی۔
مرحومہ کو کوئٹہ، راولپنڈی اور ربوہ میں مختلف حیثیتوں سے خدمت دین کی توفیق ملی۔ آپ کی وفات 24؍نومبر2007ء کو کینیڈا میں ہوئی۔