مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ13؍اکتوبر 2012ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ 6؍اکتوبر 2012ء کو کینیڈا میں 75 برس کی عمر میں برین ہیمرج سے وفات پاگئیں۔ حضورانور ایدہ اللہ نے 12؍اکتوبر2012ء کے خطبہ جمعہ میں مرحومہ کا ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
حضورانور نے فرمایا کہ مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ نے 1964ء میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور سے MBBS کیا۔ ہاؤس جاب کرنے کے بعد ترقی کے کافی مواقع تھے مگر فضل عمر ہسپتال ربوہ میں گائنی کے شعبہ میں ڈاکٹر کی ضرورت تھی، اس لئے وہاں چلی گئیں اور 1965ء سے فضل عمر ہسپتال جوائن کر لیا۔ 1964ء میں ایچی سن ہسپتال لاہور میں ہاؤس جاب کر رہی تھیں کہ اس دوران انگلینڈ میں جاب کے لئے درخواست دی جس پر ان کو ایمپلائمنٹ واچر مل گیا۔ ٹکٹ کا انتظام بھی ہو گیا۔ انگلینڈ جانے کی تیاریاں مکمل تھیں کہ الفضل میں فضل عمر ہسپتال ربوہ میں لیڈی ڈاکٹر کی اسامی کا اشتہار دیکھا۔ ساتھ ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا پیغام بھی تھا کہ اگر کوئی احمدی لیڈی ڈاکٹر نہیں آتی تو کسی عیسائی ڈاکٹر کا انتظام کر لیں۔ اس پر انہوں نے لندن جانے کا پروگرام کینسل کیا۔ باوجود اس کے کہ گھر میں سفید پوشی اور دس بہن بھائی تھے۔ والد سیکشن افسر تھے لیکن بہر حال مالی تنگی تھی اور والد نے بھی اُدھار لے کر ان کو ایم بی بی ایس کروایا تھا۔ ان حالات کے باوجود اُسی دن لاہور سے ربوہ آنے کے لئے تیاری شروع کر دی۔ اپنے ہسپتال میں جا کر اپنی MS سے اجازت طلب کی تو اُس نے پوچھا کہ تمہیں وہاں تنخواہ کیا ملے گی؟ اِنہوں نے بتایا کہ شاید 230 روپے ماہانہ الاؤنس ملے گا تو اُس نے کہا مَیں تمہیں ساڑے پانچ سو روپے دلواتی ہوں، تمہارا مستقبل بھی اس جاب سے وابستہ ہے۔ مگر انہوں نے یہ آفر منظور نہ کی اور کہا کہ میں پیسوں کی خاطر تو نہیں جا رہی، میرے پاس تو انگلینڈ کا ایمپلائمنٹ واچر بھی موجود ہے، ٹکٹ کا انتظام بھی ہے اور وہاں داخلہ بھی ہو چکا ہے۔ مگر میں یہ سب کچھ چھوڑ کر ربوہ جارہی ہوں۔ اس پر MS نے جواب دیا کہ آپ بہت عظیم عورت ہیں، اپنی جماعت کی خاطر اپنا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ اُس نے اِن کو اپنی بہترین ہاؤس جاب اسسٹنٹ کا سرٹیفکیٹ دیا اور یوں وہ ربوہ آگئیں اور 1984ء تک فضل عمر ہسپتال میں بطور لیڈی ڈاکٹر خدمت کی توفیق پائی۔
ربوہ میں اُس زمانے میں لیڈی ڈاکٹر کوئی نہیں تھی بلکہ ارد گرد کے علاقوں میں بھی کوئی نہیں تھی۔ سردی ہو یا گرمی، رات کو بھی دو یا تین بجے، کسی بھی وقت کوئی مریض آتا تو فوراً بستر چھوڑ کر مریض دیکھنے چلی جاتیں۔ ان کے بارہ میں بیان ہوتا ہے کہ ولیمہ والے دن دلہن بن کے بیٹھی تھیں کہ ہسپتال سے ایمرجینسی کی کال آگئی تو اپنے اُسی لباس میں وہاں سے اُٹھیں اور ہسپتال چلی گئیں اور مہمانوں نے ان کے بغیر ہی بعد میں کھانا کھا لیا۔ بہرحال انہوں نے وقف کی روح کے ساتھ اپنے خدمت کے عہد کو نبھایا۔
غریبوں کی بڑی مدد کیا کرتی تھیں۔ ان کا مفت علاج کر دیا کرتی تھیں۔ وہاں علاقہ میں رواج ہے، لوگ جھوٹ بول کے اپنی مشکل بیان کر دیتے ہیں تو کبھی یہ نہیں کہا کہ تم جھوٹی سچی ہو، تحقیق کروں گی۔ جو کسی نے کہا اعتبار کر لیا اور مفت علاج بھی کیا اور ساتھ دوائیاں بھی دے دیں۔ ان کے میاں کہتے ہیں کہ کئی دفعہ اس طرح ہوا کہ وہ رات ہسپتال میں گزارتی تھیں۔ صبح میاں کام پر جارہے ہوتے تھے اور وہ ہسپتال سے واپس آرہی ہوتی تھیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے ایک دفعہ مجلس شوریٰ میں ان کے پردہ کی بھی مثال دی تھی کہ کسی نے پردہ میں رہ کر کام کرنا سیکھنا ہے تو ڈاکٹر فہمیدہ سے سیکھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی ان کے متعلق فرمایا کہ بڑی قربانی کرنے والی عورت ہیں اور بہت کم لوگوں کو ایسی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ جب انہوں نے 1964ء میں ہسپتال جائن (join) کیا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو ملنے گئیں تو حضورؓ نے فوراً الحمدللہ کہا اور ان کو بڑی دعائیں دیں۔
ایک دفعہ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اعتکاف بیٹھنا چاہتی ہوں تو انہوں نے فرمایا: میرے مریض دیکھو۔ مَیں تمہارے لئے بہت دعائیں کروں گا، آپ کا اعتکاف یہی ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو ان کی شاعری بہت پسند تھی۔ بڑی اچھی شاعرہ تھیں۔ بے ساختگی بھی تھی اور پختگی بھی تھی، دلی جذبات بھی تھے۔ سات شعری مجموعے ان کے چھپ چکے ہیں۔ خلیفۃ المسیح الرابعؒ جب ہجرت کے بعد یہاں آئے ہیں تو انہوں نے اپنی نظم بھیجی جس کا ایک شعر تھا کہ
گھر پہ تالا پڑا ہے مدّت سے
اُس سے کہہ دو کہ اپنے گھر آئے
تو حضور رحمہ اللہ نے اس شعر کو بڑا سراہا۔ فرمایا کہ ڈاکٹر فہمیدہ کا یہ بڑی بوڑھیوں کے سے انداز سے ڈانٹنا مجھے بڑا پسند آیا ہے۔
مرحومہ نے ہمیشہ اپنے بچوں کو، بہن بھائیوں کو نصیحت کی کہ اگر دنیا میں عزت چاہتے ہو تو خلافت سے ایسے وابستہ ہو جاؤ کہ اپنی ہستی کو اس راہ میں مٹادو۔
ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کہتی ہیں کہ بہت تحمّل مزاج اور خوش اخلاق ڈاکٹر تھیں۔ اُس وقت نامساعد حالات تھے۔ سہولتیں بھی موجود نہیں تھیں لیکن انتہائی لگن اور محنت سے انہوں نے کام کیا۔ اپنے کام میں اعلیٰ درجہ کی مہارت تھی۔ مریضوں کے ساتھ بہت مروّت اور محبت کا سلوک تھا اور ان کے مریض ان کو آج بھی یاد رکھتے ہیں۔
ایک دفعہ نظمیں کہنے کا مقابلہ تھا اور ایک مصرعہ دیا گیا۔ ان کی یہ عادت تھی کہ کافی عاجز تھیں تو انہوں نے اس کے آخر میں نام پتہ کی جگہ پر لکھا: ’’خدمتِ خلق، لکھنا لکھانا، خانہ داری، دعائے خاتمہ بالخیر‘‘۔
یہ صرف الفاظ ہی نہیں ہیں بلکہ یہ بے نفس خاتون تھیں اور انہوں نے بڑی بے نفس خدمت کی ہے۔ اپنی زندگی کا خلاصہ انہوں نے بیان کیا اور یقیناً یہ خدمتِ خلق کرنے والی تھیں اور گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانے والی تھیں۔ آخرت پر نظر رکھنے والی تھیں۔ بڑی نافع الناس وجود تھیں اور ان کا خاتمہ بھی مَیں سمجھتا ہوں خاتمہ بالخیر ہی ہوا ہے۔ کیونکہ حدیث کے مطابق جب لوگ کسی کی تعریف کریں تو جنت اُس پر واجب ہو جاتی ہے اور یہ اُنہی لوگوں میں سے ایک تھیں۔