مکرم الحاج مولوی محمد شریف صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍جنوری 2003ء میں مکرم محمد محمود طاہر صاحب اپنے تایا مکرم الحاج مولوی محمد شریف صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ 5؍اکتوبر 1922ء کو مانگٹ اونچا (ضلع حافظ آباد) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد الحاج میاں پیر محمد صاحب تجارت کرتے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ زینب بی بی صاحبہ نے گاؤں کے سینکڑوں بچوں کو قرآن کریم پڑھایا۔ آپ کے تایا حضرت مولوی فضل الدین صاحبؓ نے 1904ء میں بیعت کی اور وہ یوپی اور حیدرآباد دکن میں مربی سلسلہ کے طور پر بھی مقیم رہے۔ آپ کے والد نے بھی اگرچہ اُسی وقت احمدیت قبول کرلی لیکن قادیان نہ جاسکے۔ وہ 1910ء میں پہلی بار پیدل قادیان پہنچے اور حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی دستی بیعت کی۔
محترم مولوی محمد شریف صاحب نے ابتدائی تعلیم حافظ آباد سے حاصل کی۔ پرائمری کے بعد مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوگئے۔ 1942ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور زندگی وقف کردی۔ وقف کی منظوری آنے تک چار سال کے لئے فوج میں ملازمت کی۔ 1946ء میں دفتر تحریک جدید میں حاضری دی تو افریقہ کے لئے تقرری ہوئی لیکن پھر تقسیم ہند اور آپ کی بیماری کی وجہ سے دفاتر تحریک جدید میں تعینات ہوئے۔ پہلے وکالت دیوان اور پھر دفتر آڈیٹر میں اور 1958ء میں اکاؤنٹنٹ جامعہ احمدیہ مقرر ہوئے اور یہیں سے ریٹائرڈ ہوئے۔
آپ کی شادی مکرمہ صادقہ بیگم صاحبہ بنت حضرت فضل محمد صاحب ہرسیاں والے سے ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں۔ ایک بیٹے مکرم وسیم احمد ظفر صاحب مربی سلسلہ برازیل میں ہیں۔
جنوری 1974ء میں آپ کو اپنی والدہ کے ہمراہ حج کی ادائیگی کی سعادت نصیب ہوئی۔ بعد میں ایک معاند احمدیت کی رپورٹ پر آپ دونوں کو حراست میں لے لیا گیا اور قاضی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ قاضی نے کہا کہ یا تو دونوں توبہ کرکے مسلمان ہوجاؤ ورنہ تمہاری سزا قتل ہے۔ پھر مقدمہ چلتا رہا۔ حالات کے مطابق آپ نے آخری وصیت نامہ بچوں کے نام تحریر کیا جس میں انہیں احمدیت کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہنے کی نصیحت بھی کی۔ ڈیڑھ ماہ کی قید تنہائی صبر و استقامت سے گزارنے کے بعد آپ کو رہائی مل گئی۔
آپ بہت سادہ مزاج اور قانع تھے، نماز باجماعت کے پابند تھے۔ روزانہ سیر اور مسواک کا استعمال باقاعدگی سے کرتے تھے۔ آپ کی وفات پر آپ کے بیٹے مکرم ڈاکٹر کریم احمد شریف صاحب نے جو نظم کہی، اس میں سے انتخاب پیش ہے:
راہِ مولیٰ میں سہی قید بہ ارض کعبہ
سب کو دکھلایا کہ حق یوں بھی ادا ہوتا ہے
تیرا محبوب تھا بندہ سو تجھی کو سونپا
حق کہاں ہم سے امانت کا ادا ہوتا ہے