مکرم انجینئر ابراہیم نصراللہ درانی صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5جون2008ء میں مکرم انجینئر ابراہیم نصراللہ درّانی صاحب کا ذکرخیر مکرم انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم ابراہیم نصراللہ درّانی صاحب کا وطن ڈیرہ غازیخان تھا۔ آپ مکرم شاہین سیف اللہ صاحب (سابق امیر ضلع چکوال) کے چھوٹے بھائی تھے۔ آپ کے والد آغا محمد بخش صاحب M.A. (انگلش) محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر تھے۔ انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات الفضل میں پڑھے تو اتنے متأثر ہوئے کہ اختلافی مسائل میں جائے بغیر قبول احمدیت کی سعادت حاصل کرلی۔
مکرم نصراللہ صاحب لاہور میں اپنی جماعت کے صدر تھے اور NESPAK میں جنرل مینیجر کے عہدہ پر فائز تھے۔ اکثر محکمانہ تعصب کا شکار رہے۔ ایک دفعہ کمپنی نے نائیجیریا بھیجنا چاہا تو اُن کے خلاف کئی متعصبین کی طرف سے ایک درخواست دی گئی کہ احمدی کو اپنے خرچ پر کمپنی تبلیغ کے لئے باہر کیوں بھیج رہی ہے؟ چنانچہ انہیں روک لیا گیا۔ جب مسجد بشارت سپین کا افتتاح ہوا تو یہ ان دنوں نائیجیریا دورے پر تھے۔ واپسی پر انہوں نے اپنے پروگرام کو اس طرح ترتیب دیا کہ اس مبارک تقریب میں شامل ہوگئے۔ آپ بڑے لائق انجینئر تھے۔ تعصب کے باوجود اس کا سب کو اعتراف تھا۔ کئی بار انہیں کسی پراجیکٹ کا مینیجر بنایا اور پھر انہیں تبدیل کرکے کسی اور کو لگا دیا گیا۔
لاہور میں قیام کے دوران انہوں نے L.L.B. بھی کیا۔ ہومیوڈاکٹر بھی بن گئے اور ایم ایس سی ٹرانسپورٹیشن انجینئرنگ میں بھی داخلہ لے لیا۔ غرض علمی ترقی کا سلسلہ جاری رکھا۔ دوستوں کو ہومیوپیتھک کی دوائیں مفت دیتے اور خدمت خلق کا سلسلہ بھی جاری رکھتے۔ IAAAE لاہور چیپٹر کی عاملہ کے اہم رکن رہے۔ ربوہ میں ہونے والے ایک سالانہ کنونشن میں انہوں نے Motorway کے تعارف پر مقالہ بھی پڑھا تھا۔ ایک بار وقف زندگی کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا تھا لیکن مرکز نے مناسب سمجھا کہ لگا ہوا روزگار نہ چھوڑیں اور ابھی نوکری کرتے رہیں۔ صلہ رحمی کا بے حد جذبہ تھا۔ ان کے بڑے بھائی نے کہا کہ ہیں تو مجھ سے چھوٹے لیکن میری ہر ضرورت پر بڑا بھائی بلکہ باپ بن کر دکھایا۔
آپ کو خلافت سے گہری محبت تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے خواب دیکھی کہ کسی مہم کے لئے حضورؒ جارہے ہیں لیکن پھر اپنی جگہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو بھجوا دیتے ہیں۔ چنانچہ سپین کی مسجد کے افتتاح سے یہ خواب پوری ہوئی۔ یہ خواب الفضل میں بھی شائع ہوئی۔
11 مارچ 2008ء کو لاہور میں وفات ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔