مکرم بشیر احمد خان مندرانی صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍نومبر 1999ء میں محترم بشیر احمد خان صاحب مندرانی بلوچ کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم ناصر احمد ظفر صاحب رقمطراز ہیں کہ
1901ء میں تونسہ (ضلع ڈیرہ غازیخان) کے قریب واقع بستی مندرانی کے جن چند احباب کو قبول احمدیت کی سعادت عطا ہوئی اُن میں میرے دادا حضرت حافظ فتح محمد صاحب بھی شامل تھے۔ اُن کے ایک پوتے اور میرے تایازاد بھائی مکرم بشیر احمد خان صاحب 4؍اپریل 1931ء کو پیدا ہوئے۔ پرائمری کا امتحان اپنے گاؤں اور میٹرک تونسہ شریف سے پاس کیا۔ آپ حصول تعلیم کے لئے اٹھارہ کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرتے رہے۔ تمام امتحانات اعزاز کے ساتھ پاس کئے۔ آپ اردو اور اسلامیات میں ایم۔اے اور پھر ایم۔ایڈ کرکے سکیل انیس پر خدمات سرانجام دے کر ریٹائرڈ ہونے والے اپنے گاؤں کے پہلے شخص تھے۔
بچپن سے ہی آپ ایک مخلص اور ہمدرد وجود تھے۔ اپنی کلاس میں جائزہ لیتے اور غریب طلباء کی ہرممکن مدد کرتے۔ اکثر پڑھانے کے لئے غریب بچے کی کتاب لیتے اور کتاب واپس کرنے سے پہلے اُس میں کچھ نقدی رکھ دیتے۔ اگر بچہ سمجھتا کہ یہ رقم غلطی سے کتاب میں رہ گئی ہے تو پھر اُسے بتادیتے کہ یہ اُس کے تعلیمی اخراجات کے لئے ہے۔ آپ نے بحیثیت استاد کبھی ٹیوشن نہیں پڑھائی اور نہ ہی طلبہ یا ماتحتوں سے کسی قسم کامفاد حاصل کیا۔
آپ ایک سکول کے انچارج مقرر ہوئے تو وہاں کا مددگار کارکن انتہائی غریب تھا۔ آپ گاؤں سے سائیکل پر سکول جایا کرتے تھے اور راستہ میں لکڑیاں اکٹھی کرکے سائیکل کے پیچھے باندھ کر اُس کارکن کے گھر چھوڑ آتے۔ اگر وہ شرمندگی سے کچھ عرض کرتا تو فرماتے کہ آپ بڑے بھائی ہیں اور آپ کی آمدنی کم ہے جبکہ میرا اس پر کچھ خرچ نہیں ہوتا اس لئے آپ قطعاً محسوس نہ کریں اور مجھے اس ثواب سے محروم نہ کریں۔
جب آپ اسسٹنٹ ایجوکیشن افسر تھے تو آپ کو کوہ سلیمان کا اندرونی علاقہ دیا گیا جہاں بیسیوں میل پیدل چل کر سکولوں تک پہنچا جا سکتا تھا۔ آپ نے نہ صرف اپنا فرض پوری دیانتداری سے ادا کیا بلکہ کسی ماتحت یا طالب علم سے کھانا تک نہ کھاتے تھے اور اپنے ساتھ ہمیشہ دال، آٹا، نمک اور بسکٹ وغیرہ رکھتے تھے۔ اپنا کھانا خود پکاتے یا کسی ہوٹل سے استفادہ کرتے۔
آپ بہت عاجز اور منکسرالمزاج تھے۔ ایک سکول کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے تو نماز کا وقت آگیا۔ جب آپ نماز ادا کررہے تھے تو ایک استاد کے کہنے پر کسی شاگرد نے آپ کی جوتی صاف کردی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے اور اپنی جوتی کو صاف دیکھا تو اُس بچے کو بلایا جس نے جوتی صاف کی تھی اور پیار سے اسے کہا کہ بیٹا آپ نے کیوں تکلیف کی ہے، اب آپ اپنی جوتی دیں تاکہ مَیں صاف کردوں!۔
جب آپ ڈیرہ غازیخان کے سکول میں ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ تھے تو ہوسٹل کا ٹیوب ویل خراب ہوگیا۔ پانی نہ ہونے سے طلبہ سخت پریشان تھے۔ لیکن اگلی صبح جب اٹھے تو دیکھا کہ تمام مٹکے لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ رات کو اُس کی آنکھ کھلی تو اُس نے دیکھا کہ مندرانی صاحب ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع واپڈا کے ٹیوب ویل سے تنہا گھڑے لاکر مٹکوں میں ڈال رہے ہیں۔
آپ سے پہلے ہوسٹل میں طلبہ کے کھانے کا خرچ فی کس دو روپے تھا جو آپ کے دور میں چند آنوں تک پہنچ گیا۔
آپ کی محنت اور دیانت محکمہ تعلیم میں زبان زد عام تھی۔ اسی لئے پنجاب سے جو دو اساتذہ Ph.D. کروانے کے لئے نامزد ہوئے، آپ اُن میں سے ایک تھے۔ لیکن آپ نے محکمہ کو جواب دیا کہ خاکسار والدین کا اکلوتا بیٹا ہے، والدہ صاحبہ پہلے وفات پاچکی ہیں جبکہ میرے والد محترم صاحب فراش ہیں اور مجھے اُن کی خدمت اور عیادت کی سعادت مل رہی ہے۔ ان حالات میں Ph.D. کے لئے جانا ناممکن ہے۔
آپ جانوروں پر بھی نہایت مہربان تھے۔ آپ کا معمول تھا کہ صبح نماز اور تلاوت قرآن سے فارغ ہوکر باقاعدگی سے چڑیوں کو روٹی کے باریک ٹکڑے کرکے ڈالتے۔ آپ کے ایک ہمسائے تین روز کے لئے کہیں گئے تو اپنے مکان کے بیرونی دروازہ کی چابی آپ کو دے گئے۔ اچانک اُن کے گھر سے بلی کی آواز آئی۔ آپ نے دیکھا تو بلی کمرے میں مقفل تھی۔ آپ تین دن صبح و شام بلی کو دودھ پلیٹ میں ڈال کر دروازہ کے نیچے سے پلاتے رہے۔
آپ بے حد متوکل تھے اور خدا تعالیٰ بھی آپ کی ضروریات پر نظر رکھتا تھا۔ جب آپ لاہور میں ایم۔ایڈ کر رہے تھے تو مسجد میں قیام تھا۔ ایک شام پارک میں پڑھنے کے لئے گئے تو اپنی کُل پونجی سات سو روپے ایک کتاب میں رکھ دیئے۔ تین اوباش لڑکوں نے بہانے سے وہ کتاب اٹھالی اور چلتے بنے۔ جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے دعا شروع کردی کہ اے اللہ! مجھے کسی کا محتاج نہ کر اور خود میری کفالت فرما۔ دوسرے روز ہی مسجد میں ایک پولیس والا پہنچا اور کہا کہ آپ کو تھانیدار صاحب بلا رہے ہیں۔ آپ تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ تینوں لڑکے پولیس کی حراست میں ہیں اور تھانیدار صاحب نے کتاب جس پر پتہ درج تھا اور رقم آپ کے حوالہ کی۔
آپ باقاعدگی سے نماز تہجد کے لئے رات دو بجے اٹھتے تھے اور نماز فجر تک نوافل میں مصروف رہتے۔ صبح وقت پر اٹھنے کے لئے آرام دہ بستر استعمال نہ کرتے، سر کے نیچے بوری تہہ کرکے رکھ لیتے اور چارپائی پر چٹائی بچھالیتے۔ دوران سفر کسی مسجد کو ویران دیکھتے تو اُسے اپنی نمازوں سے آباد کرتے۔ جب آپ کی صحت خراب ہوئی اور گھر والے آرام کا مشورہ دیتے تو فرماتے کہ سفر بہت لمبا ہے اور وقت کم ہے، میرا آرام اور سکون نمازوں ہی میں ہے۔
جماعت کی مالی تحریکات کے ساتھ ساتھ صدقات اور غرباء کی امداد میں دل کھول کر حصہ لیتے لیکن اتنی خاموشی کے ساتھ کہ دوسرے ہاتھ کو بھی علم نہ ہوتا۔جماعتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے لیکن خودنمائی سے کوسوں دور تھے۔ کافی عرصہ جماعت کے صدر رہے اور وفات کے وقت زعیم انصاراللہ تھے۔ مجلس مشاورت میں اپنے علاقہ کی نمائندگی بھی کرتے رہے۔ وفات پر آپ کے وصیت کے حساب میں زائد رقم جمع تھی۔ وفات سے قبل اپنے کفن دفن اور ربوہ تک میت پہنچانے کے لئے رقم ایک لفافہ میں ڈال کر علیحدہ رکھی ہوئی تھی اور وصیت میں لکھا تھا کہ آپ کا سفر آخرت کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہئے۔
محترم بشیر احمد مندرانی صاحب 25؍جون 1999ء کو 68 سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد وفات پاگئے اور اگلے روز بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔