مکرم جمال سکٹیکی صاحب آف سیرالیون
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍فروری 2007ء میں مکرم لطف الرحمن محمود صاحب نے مکرم جمال سکٹیکی صاحب آف سیرالیون کا ذکرخیر کیا ہے جن کی وفات یکم اکتوبر 2006ء کو ہوئی۔
جنگ عظیم اول سے قبل اور اس کے معاً بعد بہت سے لبنانی تاجروں نے بہتر معاشی مستقبل کے لئے افریقی ممالک کو اپنا مسکن ثانی بنا لیا جن میں سکٹیکی فیملی کے بہت سے افراد بھی شامل تھے جو سیرالیون کے مختلف مقامات پر آباد ہو گئے۔
1937ء میں احمدیہ مشن روکوپر قائم ہوا تو ایک لبنانی عالم محمد حسن ابراہیم الحسینی کی دعوت پر حضرت مولانا نذیر احمدصاحب علیؓ Baomahun تشریف لے گئے اور وہاں ایک مضبوط اور فعال جماعت قائم ہوگئی۔ لیکن جنگ عظیم کے دوران وہاں کی سونے کی کانیں بند ہوگئیں تو بہت سے احمدی دیگر مقامات پر منتقل ہو گئے۔ اس طرح احمدیت اُن علاقوں میں بھی پہنچ گئی۔ محترم حسن ابراہیم الحسینی صاحب نے لبنانی تاجروں تک یہ پیغام پہنچایا تو بعض سعادت مند روحوں کو احمدیت سے وابستہ ہونے کی توفیق مل گئی جن میں محترم ابراہیم خلیل سکٹیکی اور محترم محمد حدرُج صاحب کا نام سرفہرست ہے۔ شدید مخالفت کے باوجود ان دونوں نے غیر معمولی استقامت کا مظاہرہ کیا اور آخر دم تک احمدیت سے وابستہ رہے۔ جناب خلیل سکٹیکی نے اپنے ایک بیٹے ’احسن خلیل‘ کو حصول تعلیم کے لئے ربوہ بھجوایا۔ عزیزم جمال سکٹیکی انہی فدائی اور مخلص بزرگ کے پوتے تھے۔
محترم سید محمد حسن ابراہیم الحسینی ایک جید عالم ، شاعر، مصنف اور پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ 1970ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دورہ سیرالیون کے دوران انہوں نے بڑی محبت اور عقیدت سے حضورؒ کی خدمت میں اپنا قصیدہ پیش کیا۔ ان کی ایک صاحبزادی روضہ صاحبہ کی شادی حضرت مرزا عبدالحق صاحب آف سرگودھا کے بیٹے مرزا ناصر احمد صاحب کے ساتھ ہوئی جو اُس وقت احمدیہ سیکنڈری سکول Bo میں پڑھاتے تھے۔ اسی طرح جمال کی ایک ہمشیرہ الحسینی صاحب کے بیٹے محمود حسن سے بیاہی ہوئی ہیں۔
دوسرے احمدی تاجر محمد حدرج صاحب کے بیٹے محترم سعید حُدرُج تو سیرالیون کے مشہور صنعتکار ہیں اور ایک مخلص اور فدائی احمدی ہیں۔ ربوہ بھی جاچکے ہیں اور برطانیہ میں کئی بار جلسہ سالانہ پر آئے ہیں۔ اُن کی بیٹی عائشہ کی شادی جمال سکیٹکی سے ہوئی تھی۔
ان ابتدائی لبنانی مخلصین کے ذکر خیر کے ساتھ، ذہن ابتدائی دَور کے مربیان سلسلہ کی طرف منتقل ہوتا ہے جنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں اخلاص، ایثار، سادگی اور فدائیت کی عدیم المثال داستانیں رقم کی ہیں۔ جنہیں بسا اوقات پیدل سفر کرنا پڑتا تھا۔ کئی مرتبہ انہیںایسے ٹرکوں میں سفر کرنا پڑتا جن میں جانور بھی لادے جاتے تھے۔ بعض مقامات پرلوگوں نے سونے کے لئے جگہ نہ دی تو رات بھر کسی ندی، نالے یا دریا کے کنارے گھومتے رہے۔ کھانے پینے کی مشکلات، چھوٹے چھوٹے کمروں میں معمولی اور شکستہ فرنیچر۔ مگر ان کے پائے استقلال میں جنبش نہ آئی۔ اور ان کی جدوجہد اور محنت و ایثار کو اس قدر پھل لگا کہ دل حمد و ثنا کے ترانے گانے لگتا ہے۔ خالق ارض و سما کے وعدوں کے مطابق نہ صرف حضرت اقدس کے دلی محبوں کے نفوس اور اموال میں غیر معمولی برکت پڑی بلکہ سنگ وخشت کی عمارتوں پر بھی ان برکتوں کا نزول دیکھا ہے۔ چنانچہ 1960ء میں محترم مولانا شیخ نصیرالدین احمد صاحب نے سیرالیون میں جماعت کے پہلے سیکنڈری سکول کا آغاز Bo شہر میں احمدیہ مشن کی لائبریری میں 30طلبہ اور 2اساتذہ کے ساتھ کیا۔ بعد میں 20مزید احمدیہ سیکنڈری سکولز نے اس سے جنم لیا اور اس سکول نے بہت سے نئے سکولوں کو تربیت یافتہ پرنسپل مہیا کئے۔ جب 1985ء میں اس سکول کی پچیس سالہ تقریب منعقد کی گئی تو اس وقت اُن دس ممالک کے پرچم بھی لہرائے گئے جن سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے اس سکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اب اسی سکول کے احاطہ میں اس وقت 4سیکنڈری سکول کام کر رہے ہیں جن میں ایک سکول خالصتہً طالبات کے لئے ہے۔ روزانہ تقریباً 3000طلبہ اور طالبات حصول علم کے لئے ان احمدیہ سکولز کارخ کرتے ہیں۔
عزیزم جمال سکٹیکی کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا جن میں ایک نمایاں خوبی عبادات کا انہماک اور خاص طور پر جمعہ کا اہتمام تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے Kenemaمیں قیام کے سالوں میں جمعہ کے دن عین کاروبار کے درمیان جمعہ کی ادائیگی کے لئے پہنچ جاتا۔ اسی طرح رمضان میں تراویح کے لئے پہنچ جاتا بلکہ بہن بھائیوں کے بچوں کو بھی ساتھ لے آتا۔ خود بھی دعاگو تھا اور بزرگوں کو بھی دعا کی یاددہانی کرواتا رہتا تھا۔
جمال کو زندہ دلی اور خوش مزاجی سے وافر حصہ ملا تھا۔ جمال کو بار بار مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی قسم کے بزنس کئے۔ سول وار کے بعد عمارتی لکڑی کا کام شروع کیا تو بہت سے لوگوں نے مال تو لے لیا مگر رقوم مار لیں اور اُسے بہت زیادہ نقصان ہوا۔ اب زرعی اجناس کا بزنس کر رہا تھا اور اسی مقصد کے لئے دیہی علاقوں کا چکر لگاتا رہتا۔ افسوس کہ ایک ایسے ہی سفر میں سڑک پر دل کا حملہ ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔
جمال کی ایک اور خوبی چندوں اور مالی تحریکات میں فراخدلی اور بشاشت کے ساتھ حصہ لینے کی عادت تھی جو اُسے وراثت میں ملی تھی۔ اُس کے دادا محترم ابراہیم خلیل سکٹیکی کا ذکر کرتے ہوئے مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب لکھتے ہیں: ’’سیرالیون احمدیہ مشن کے ابتدائی مشکل اوقات میں آپ اکثر مالی امداد فرماتے رہے۔ مربیان سلسلہ سے محبت اور خندہ پیشانی سے پیش آنا ان کا خاصہ تھا۔ جب بھی ان کے ہاں جانا ہوا، انہیں یہی کہتے سنا کہ میرا گھر مبلغین کے لئے وقف ہے اور ان کی خدمت میرے لئے عین سعادت ہے۔‘‘
یہی خندہ پیشانی، دل کی فراخی، مالی قربانی کے لئے آمادگی ان کے پوتے جمال بن عبدالرئوف کی امتیازی صفات تھیں۔
جمال دینی مطالعہ کے لئے وقت نکال لیتا تھا۔ مختلف مذاہب اور فرقوں میں پائے جانے والے مشترک اور مختلف نکات کے بارہ میں معلومات اخذ کرتا رہتا۔ عیسائیوں سے تبلیغی بحث بھی کرتا۔ اکثر کوئی نہ کوئی دینی کتاب اُس کے زیرمطالعہ رہتی۔ اُسے اپنے بچوں کو بھی احمدیت کا خادم بنانے کی طرف بڑی توجہ تھی۔ افسوس کہ وہ چار کم سن بچے چھوڑ کر دار فانی سے رخصت ہو گیا۔
سیرالیون میں دس بارہ بڑے قبائل آباد ہیں۔ یہی کیفیت وہاں بولی جانے والی زبانوں کی ہے۔ جمال کو انگریزی کے علاوہ کریول، مینڈے، ٹمن وغیرہ کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ بڑی روانی سے ان زبانوں میں گفتگو کر سکتا تھا۔
سیرالیون میں لوگ قبائلی وابستگی کے حساب سے تقاریب میں شریک ہوتے ہیں چنانچہ ایک ہی فرقہ کے علاقہ میں بھی مختلف زبانوں اور قبائلیوں کیلئے مختلف مساجد دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے برعکس احمدیہ مسجد میں مینڈے،ٹمنی، فولا، میڈنگو، لبنانی، پاکستانی، ہندوستانی سب اکٹھے سر بسجودہوتے ہیں اور حقیقی اخوت کا منظر نظر آتا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں جب مینڈے اور ٹمنی قبائل میں سیاسی تصادم نے افسوسناک شکل اختیار کر لی اور Bo شہر بھی اس کی لپیٹ میں آگیا تو ہماری مسجد سے تین چار سو گز کے فاصلے پر واقع ٹمنی قبیلہ کے مکانات نذر آتش کر دئے گئے مگر اسی شام ہماری مسجد میں ٹمنی بزرگ کی امامت میں ہم سب نے نماز پڑھی۔ مینڈے مقتدیوں کی اکثریت تھی۔ باہر انہی قبائل کے لوگ آتش و آہن اور نفرتوں کے الاؤ میں جل رہے تھے مگر انہی قبائل اور شعوب کے افراد کو احمدیت کی برکت نے محبت و الفت کی لڑی میں پرویا ہوا تھا۔