مکرم حکیم محمد عقیل صاحب
مکرم حکیم محمد عقیل صاحب طبیب درجہ اوّل، وقف جدید کے معلمین کو طب کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ وقت کے پابند اور متاثر کُن شخصیت کے مالک تھے۔ آپ حضرت خواجہ غلام فریدؒ چاچڑاں شریف کے عشاق مریدوں میں سے تھے۔ ’’اشارات فریدی‘‘ کے کئی حوالے آپ کو زبانی یاد تھے۔ اُنہی میں جب آپ نے یہ پڑھا کہ ’’حضرت مرزاغلام احمد صاحب قادیانی حق پر ہیں اور اپنے دعویٰ میں راستباز اور صادق ہیں اور آٹھوں پہر اللہ حق سبحانہٗ کی عبادت میں مستغرق رہتے ہیں اور اسلام کی ترقی اور دینی امور کی سربلندی کے لئے دل و جان سے کوشاں ہیں۔ مَیں ان میں کوئی مذموم اور قبیح چیز نہیں دیکھتا۔ اگر انہوں نے مہدی اور عیسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ بھی ایسی بات ہے جو جائز ہے‘‘۔ یہ پڑھنے کے بعد آپ نے احمدیت قبول کرلی۔
محترم حکیم صاحب نے 1958ء میں محکمہ انہار بہاولپور سے استعفیٰ دیدیا اور اپنی زندگی وقف کردی۔ اس طرح آپ وقف جدید کے معلمین میں شامل ہوگئے۔ سب سے پہلے آپ نے اپنے بھائیوں اور خاندان کے دیگر افراد کو احمدی کیا۔ آپ زیادہ عرصہ نگرپارکر اور اندرون سندھ تعینات رہے۔ ایک دفعہ جب آپ جلسہ سالانہ پر ربوہ آئے تو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے آپ کو حکم دیا کہ اندرون سندھ چلے جائیں جہاں پولیس کو روکیں جو نومبایعین کو تنگ کرتی اور مارتی پیٹتی ہے۔ آپ کو حیرت ہوئی کہ آپ کس طرح پولیس کو روک سکتے ہیں۔ لیکن پھر خلیفہ وقت کا حکم سمجھ کر سندھ پہنچ گئے۔ وہاں لمبا عرصہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے موسمی وبائی امراض پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ نے ایک دوکان کرایہ پر لے کر مطب کھول لیا۔ جلد ہی علاقے بھر میں آپ بہت مشہور ہوگئے۔ وہاں ایک جماعت کا سخت مخالف DSP بھی تھا۔ آپ نے دوا کا ایک نسخہ اُسے تحفۃً پیش کیا اور باتیں کیں تو معلوم ہوا کہ وہ حضرت خواجہ غلام فرید چاچڑاں شریف کا مرید ہے ۔ آپ نے اُسے اپنے بارہ میں بتایا اور حضرت خواجہ صاحب کا وہ ارشاد بھی سنایا تو پولیس افسر کی آپ سے دوستی ہوگئی اور پولیس کی حمایت سے احمدیوں پر مخالفین کے حملے ختم ہوگئے۔ اسی طرح علاقے کے بہت سے غریب مظلوم لوگ جو پولیس کے مظالم کا شکار ہوتے تھے وہ آپ کی سفارش سے نجات پاجاتے۔
آپ سندھ سے واپس آئے تو مدرسہ وقف جدید میں طب کے استاد مقرر ہوئے۔ آپ نے ربوہ میں گھر بھی بنالیا۔ آپ نیک طینت، کم گو، مستجاب الدعوات اور مہمان نواز تھے۔ اپنے شاگردوں سے دوا کے پیسے نہ لیتے بلکہ گھر آنے والوں کو چائے پئے بغیر واپس نہ جانے دیتے۔ خاکسار اور خوددار انسان تھے۔ کبھی کسی کی غیبت نہ کی، کبھی احسان کرکے نہ جتایا۔ ہردلعزیز استاد تھے۔ کبھی نسخہ نہ چھپاتے۔ ایک کتاب ’’طبّی پاکٹ بُک‘‘ کے نام سے تصنیف کرکے شائع کروائی جس میں صرف مجرب نسخے جمع کئے۔
14؍ستمبر 1999ء کو 70 سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی۔ آپ کا ذکر خیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍جنوری 2001ء میں مکرم نعیم طاہر سون صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔