مکرم رانا ریاض احمد صاحب
2؍فروری 1994ء کی سہ پہر تین بجے ایک ویگن میں سوار دس معاندینِ احمدیت نے ٹاؤن شپ لاہور کے ایک پُرجوش داعی الی اللہ مکرم رانا عبدالستار خان صاحب پر اُن کے گھر کے باہر حملہ کیا اور انہیں زدوکوب کرتے ہوئے اغواء کرنے کی کوشش کی۔ اسی اثناء میں اُن کے بیٹے مکرم رانا ریاض احمد صاحب اپنے والد کو بچانے کے لئے باہر آئے تو ایک بدبخت نے اُن پر فائر کردیا ۔ گولی پیشانی پر لگی جس سے وہ بیہوش ہوکر گِر گئے اور حملہ آور اُن کے والد کو اغوا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مکرم رانا ریاض احمد صاحب کو ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے مکرم رانا عبدالستار خانصاحب کے نام اپنے ایک مکتوب میں فرمایا کہ پیارے عزیزم رانا ریاض احمد کی شہادت کی اطلاع ملی ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ خوش نصیب ہے آپ کا بیٹا جو شہید ہوکر زندۂ و جاوید ہوگیا۔ وقتی طور پر اس کا بہت افسوس ہے لیکن خدا کی نگاہ میں یہ بہت بڑی سعادت ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ تاریخ احمدیت میں ستاروں سے بڑھ کر چمکے گی اور لوگ عزت سے یاد کریں گے اور فخر سے نام لیں گے۔ مبارک ہے وہ خاندان جس کے حصہ میں یہ عظیم سعادت آئی ہے۔
مکرم رانا ریاض احمد صاحب 15؍مارچ 1954ء کو ضلع وہاڑی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی پرورش اپنے دادا اور نانا کی سرپرستی میں ہوئی ۔ یہ دونوں وجود حضرت مصلح موعودؓ کے دور میں احمدیت کے نور سے منور ہوئے تھے۔ مکرم رانا ریاض صاحب بھی اپنے بزرگوں کی چلتی پھرتی تصویر تھے، ملنسار، منکسرالمزاج اور شگفتہ طبیعت۔ 1972ء میں میٹرک کرکے لاہور ریلوے میں بطور الیکٹریشن ملازم ہوگئے لیکن پھر جلد ہی اپنا کاروبار (بلڈنگ میٹیریل) کا شروع کردیا۔ روزانہ غریب طبقہ کے افراد سے آپ کا واسطہ پڑتا اور آپ ہرممکن رعایت سے کام لیتے۔ کئی مجبور لوگوں کو ساری رقم معاف کردی۔ ہمدردی خلق آپ کی طبیعت کا حصہ تھی۔ ایک دو یتیم بچوں کی پڑھائی کا خرچ بھی آپ انتہائی رازداری سے ادا کرتے تھے جس کا علم گھر والوں کو اس وقت ہوا جب وہ بچے آپکی شہادت کے بعد فیس لینے گھر آئے۔ کوئی بھی اپنی دُکھ درد کی کہانی آپ کو سناتا تو آپ اس کی ہرممکن مدد پر تیار ہوجاتے۔ انسانوں کے علاوہ جانوروں کی تکلیف کو بھی محسوس کرتے ۔ آپ کا دل کسی کا درد دیکھ ہی نہ سکتا تھا۔
محلہ کے یتیم و بیواؤں کی اکثر مالی امداد کرتے۔ جو غریب لوگ گھروں میں لکڑی بطور ایندھن استعمال کرتے تھے، وہ جب بھی مطالبہ کرتے، آپ ان کی ضرورت پوری کرتے۔ بسااوقات ان کا پیغام آتا تو آپ فوراً کلہاڑے سے لکڑیاں پھاڑنا شروع ہوجاتے اور خود ان کے گھر تک چھوڑ آتے۔ بعض اوقات یہ خدمت اپنے چھوٹے بھائی مکرم رانا ارسال احمد صاحب مربی سلسلہ کے سپرد بھی کی جن کے قلم سے شہید مرحوم کا ذکرخیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ 28؍فروری 98ء کی زینت ہے۔
مکرم رانا ریاض احمد صاحب بچپن سے نمازوں کے پابند تھے اور ملازمت اور کاروبار میں بھی اپنی نمازوں کی پوری حفاظت کی۔ جماعتی خدمات کو نعمتِ عظمیٰ خیال کرتے۔ دعوت الی اللہ کا جنون تھا اور آخری ایام میں ناظم اصلاح و ارشاد کے طور پر خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔اپنے دوستوں کو بارہا ربوہ لے کر جاتے۔ خلافت کے ساتھ قلبی لگاؤ تھا۔ جب MTA کا آغاز ہوا تو اس کو دکھانے کا انتظام آپ کے گھر سے قریباً 2 کلومیٹر کے فاصلہ پر کیا گیا۔ آپ خطبہ سے دو گھنٹہ پہلے وہاں چلے جاتے اور بعد میں بھی دیر تک بیٹھے رہتے۔ یہی پاکیزہ ادائیں تھیں جو اُن کو جلد جلد آسمان روحانی کی بلندیوں تک کھینچ کر لے گئیں۔
آپ نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ (جو آپ کی شہادت کے صرف ساڑھے چار ماہ بعد وفات پاگئیں) اور آٹھ بچے چھوڑے ہیں۔