مکرم رانا فیروز خاں صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ 16جولائی 2007ء میں مکرم نذیر احمد سانول صاحب کے قلم سے مکرم رانا فیروز خان صاحب کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
مکرم رانا محمد خان صاحب سابق امیر ضلع بہاولنگر کے بڑے بھائی مکرم رانا فیروز خان صاحب اپنے چھوٹے بھائی کا امیر ہونے کی وجہ سے بے حد احترام کرتے۔ حتّی کہ بچوں کو بھی یہی کہتے کہ دنیاوی معاملات میں بھی امیر صاحب سے مشورہ لینا اور جو وہ کہیں وہی کرلینا۔ مرحوم بہت خوش اخلاق اور خوش مزاج تھے۔ ان پڑھ ہونے کے باوجود قرآن کریم ناظرہ اعراب کے بغیر بھی درست پڑھ لیتے۔ بہت فہم و فراست کے مالک تھے۔ ہمیشہ صحیح اور ہمدردانہ مشورہ دیتے۔ مرحوم کے والد مکرم چوہدری احمد خان صاحب علاقہ کے معروف زمیندار اور بہاولپور کے امیر جماعت تھے۔ اُن کی نیک نامی، جرأت مندی اور بہادری ریاست میں مشہور تھی۔ مرحوم نے بھی نیک نامی ورثہ میں پائی تھی۔ راست گو تھے۔ عدل میں امیر غریب، اپنے پرائے کا کوئی امتیاز نہ کرتے۔ دینی خدمات کا بے حد شوق تھا۔ مسجد کی ضروریات اور تزئین کا بڑا خیال کرتے اور اِس سلسلہ میں اپنی صحت کی بھی پرواہ نہ کرتے۔ نماز تہجد کے پابند تھے۔ مسجد میں نمازوں سے پہلے اور بعد میں لمبا وقت نوافل میں صرف کرتے۔ دوسروں کو نماز باجماعت کی تلقین کرتے اور بچوں کو حوصلہ افزائی کے لئے انعامات بھی دیتے۔
مرحوم کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ کبھی کسی چندہ میں بقایا دار نہ ہوتے۔ تحریکات پر لبیک کہتے اور وعدہ لکھواتے ہی ادائیگی کر دیتے۔ اپنے مرحومین کی طرف سے بھی ادائیگی کرتے۔ روزانہ صبح بلند آواز سے تلاوت کرتے۔ مرکزی مہمانوں اور واقفین زندگی کے ساتھ دلی محبت تھی۔ مہمانوں کے قیام و طعام اور دیگر ضروریات کا خیال رکھتے۔ جوانی میں بھی تقویٰ سے کام لینے والے تھے۔ موصی تھے۔ ایک خطبہ عید میں مکرم امیر صاحب نے مرکزی ہدایت پر حقہ نوشی ترک کرنے کی نصیحت کی تو آپ نے وہیں وعدہ کرلیا اور پھر ساری عمر ایک کش بھی نہ لگایا۔ یہ آپ کی اطاعت مرکز، اطاعت امیر اور نیکی کو جذب کرنے کی خوبی تھی۔ آپ کو مختلف عہدوں پر خدمت کی توفیق ملی۔ بیس سال سے زائد صدر جماعت رہے اور مقامی مسجد آپ کی نگرانی میں تعمیر ہوئی۔
محترم رانا صاحب لمبا عرصہ شوگر کے عارضہ میں مبتلا رہے اور صاحب فراش بھی لیکن کبھی بے صبری کا کلمہ نہ کہا۔ ہمیشہ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے۔ 6دسمبر 2006ء کو پچانوے سال کی عمر میں وفات پائی۔ متعدد غیرازجماعت بھی جنازہ میں شامل ہوئے۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ پسماندگان میں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔