مکرم رانا مبارک علی صاحب کی قبولِ احمدیت کی داستان
ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ نومبر 2000ء میں مکرم رانا مبارک علی صاحب اپنی قبولِ احمدیت کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خاکسار ضلع جالندھر کے گاؤں ملسیاں کا رہائشی تھا۔ راجپوت برادری سے تعلق تھا جو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ اور دینی لحاظ سے صرف عید کی نماز پڑھا کرتے تھے۔ زرعی زمینیں کافی تھیں جنہیں بیچ بیچ کر عیاشانہ زندگی گزارتے تھے۔ جب میری عمر گیارہ سال ہوئی تو مَیں نے خود جاکر سکول میں داخلہ لے لیا اور اٹھارہ سال کی عمر میں جب ساتویں جماعت میں پہنچا تو تعلیم چھوڑ کر کوئٹہ چلا گیا جہاں میرے بڑے بھائی پولیس میں ملازم تھے۔ 1945ء میں کوئٹہ میں محکمہ پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف میں ملازم ہوگیا۔
کسی احمدی سے میری شناسائی نہیں تھی۔ احمدیت کے بارہ میں صرف جھوٹے پراپیگنڈہ کا علم تھا کہ قادیان میں مرزا صاحب نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے اور وہاں جنت اور دوزخ بنائی ہوئی ہیں۔
1949ء میں خاکسار سبّی کے قریبی اسٹیشن پر تعینات تھا تو ٹیلیفون پر یہ پیغام ملا کہ ریل گاڑی سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کوئٹہ تشریف لارہے ہیں۔ مجھے حضورؓ کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ جب گاڑی آئی تو مَیں نے بڑی بھاگ دوڑ کی لیکن حضورؓ نظر نہ آئے۔ چنانچہ مَیں گاڑی میں سوار ہوگیا اور سبّی پہنچ کر حضورؓ کو دیکھا جب ملاقات کرنے والے لائن میں لگ کر مصافحہ کر رہے تھے۔ مَیں چند قدم دُور کھڑا ہوکر یہ نظارہ دیکھتا اور دل میں حیران ہوتا رہا کہ یہ نورانی چہرہ اور ایسا غلط دعویٰ ، ہونہیں سکتا۔
کچھ عرصہ بعد میری خواہش پر میری تبدیلی پنجاب میں ہوگئی اور مجھے رحیم یارخان جانے کا حکم ملا۔ وہاں رہائشی کوارٹر نہیں مل سکا اس لئے عارضی طور پر مجھے ایک دُور کے رشتہ دار نے اپنے خالی چوبارہ میں مفت رہائش فراہم کردی تاہم مجھے خبردار کیا کہ یہاں رہائش میں صرف ایک خطرہ ہے، وہ یہ کہ پڑوس میں پچھلی طرف مرزائی رہتے ہیں، اُن سے بچ کر رہنا۔ مَیں نے کہا کہ انہوں نے مجھے کیا کہنا ہے۔ چنانچہ اُسی وقت اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ وہاں رہائش اختیار کرلی۔ دوسرے روز میری بیوی نے کہا کہ پڑوس والی خاتون بہت اچھی ہے اور اُس نے شام کے کھانے کا کہا ہے۔ مَیں نے کہا کہ سنا ہے ان کے گھر کا کھانا جائز نہیں۔ میری بیوی نے کہا کہ نہیں نہیں، یہ خاتون، اس کی بہوئیں، پوتیاں وغیرہ بہت ہی اچھی ہیں۔ خیر کھانا کھالیا۔ تقریباً ایک ہفتہ بعد اُن کے مردوں سے شناسائی ہوئی۔ اُن کا نام چودھری نذیر احمد تھا، اور اُن کی مکان کے نیچے ہی بان کی دوکان تھی۔ مَیں نے اُن کی دوکان پر آنا جانا شروع کردیا اور ایک دن اُن سے خود ہی پوچھا کہ آپ لوگ بہت اچھے اخلاق والے اور نمازی ہیں لیکن لوگ آپ سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟۔ انہوں نے احمدیت کا مختصر تعارف کروایا۔ اُن کی باتیں سُن کر مجھے انبیاء کے حالات یاد آگئے جو مَیں نے اپنے بچپن میں سکول کی کتابوں میں پڑھے تھے۔ اُن انبیاء کو تکالیف دی گئیں اسلئے کہ وہ اچھی باتوں کی تعلیم دیتے تھے۔ مَیں سوچنے لگا کہ کہیں یہ وہی واقعات تو نہیں!۔
چودھری صاحب کی تعلیم اگرچہ مجھ سے بھی کم تھی مگر اُن میں صداقت اور اعلیٰ اخلاق بہت تھے۔ چنانچہ سرکاری رہائش ملنے کے بعد بھی مَیں اُن سے ملتا رہا۔ جمعہ قاضیانوالی مسجد میں پڑھتا تھا جہاں عطاء اللہ شاہ بخاری کی سرپرستی میں چھپنے والے دو رسالے تقسیم ہوا کرتے جن میں حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا۔ مجھے احمدیت کے نزدیک لانے میں ان غلط حوالوں کا بھی بہت دخل تھا۔ اصل کتاب میں یا تو حوالہ ہی موجود نہ ہوتا یا پھر اعتراض غلط ہوتا۔
جب مَیں نے چودھری صاحب سے احمدیت کے بارہ میں کوئی کتاب مانگی تو انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیف ’’دعوت الامیر‘‘ مجھے دی جس نے میرے دل کی کایا ہی پلٹ دی۔ چنانچہ 21؍مئی کی دوپہر کو شدید گرمی تھی جب یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے احمدیت کی صداقت کا کامل یقین ہوگیا۔ مَیں اُسی وقت چودھری صاحب کے پاس پہنچا کہ میری فوری بیعت کرواؤ۔ وہاں مربی صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوںنے کہا کہ ابھی کچھ کتابیں اَور پڑھ لو اور جلسہ سالانہ پر جاکر دستی بیعت کرلینا۔ لیکن میرے اصرار پر دو روز بعد بیعت کروالی جو 23؍جون 1952ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے منظور فرمالی۔
اُنہی دنوں جماعت کی مخالفت میں تحریک زور پکڑنے لگی۔ لیکن مجھے جو انعامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے، اُن کو میرے قریب رہنے والوں نے بھی محسوس کیا۔ مجھے پہلا ابتلاء اُس وقت آیا جب میری ہمشیرہ کی شادی تھی۔ قریبی رشتہ داروں نے کہا کہ اگر یہ مرزائی شادی میں آیا تو ہم نہیں آئیں گے۔ اس پر میری والدہ اتنا پریشان ہوئیں کہ پاگلوں جیسی حرکتیں شروع کردیں۔ میرے سمجھانے کا بھی اُن پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اگرچہ میری بیوی نے اُس وقت تک بیعت نہیں کی تھی لیکن اُس نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ آخر ایک دوست کے مشورہ پر مَیں نے والدہ سے کہا کہ مَیں شادی تک احمدیت چھوڑ دیتا ہوں اور شادی کے بعد دوبارہ بیعت کرلوں گا۔ اس پر وہ خوش ہوگئیں۔ لیکن میرا دل پریشان رہنے لگا۔ سجدوں میں روتا رہتا۔ ایک صبح قرآن پڑھنے لگا تو جو صفحہ سب سے پہلے کھل کر میرے سامنے آیا وہاں لکھا تھا کہ جو لوگ خدا کے ساتھ وعدہ کرکے پھر جاتے ہیں، اُن کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ یہ پڑھتے ہی مَیں خوف سے کانپا اور اپنے ارادہ سے توبہ کرلی۔ والدہ کو بتایا کہ مَیں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا البتہ شادی کے دنوں میں کہیں اَور چلاجاؤں گا اور شامل نہیں ہوں گا۔ یہ سن کر وہ روتی ہوئی میرے گھر سے چلی گئیں۔ اسی دوران میرے بڑے بھائی نذیر جو پولیس میں ملازم تھے وہ آگئے۔ مَیں اُن سے ملنے کی بجائے گھر میں بیٹھا رہا کیونکہ اُن کی عادت پولیس والوں جیسی ہے۔ اُن کو ملنے کے لئے سارے رشتہ دار میرے گھر کے سامنے اکٹھے ہوئے اور ساری داستان اُنہیں سنائی۔ انہوں نے سُن کر میرے حق میں فیصلہ دیا اور غلیظ گالیاں نکالنی شروع کردیں۔ اس کے ساتھ ہی سب ٹھیک ہوگئے۔ چنانچہ شادی کی ساری تیاریاں میرے ہی گھر میں ہوئیں۔
اس کے بعد کئی چھوٹے بڑے ابتلا آئے لیکن ہر بار اللہ تعالیٰ نے کئی انعامات بھی نازل فرمائے۔ مجھے میرے مکان سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے صرف مجھے میرا حق عطا فرمادیا بلکہ کئی دوسرے رہائشی پلاٹ اور مکان بنانے کی توفیق بھی ملی جن سے نہ صرف مجھے ذاتی فوائد حاصل ہوئے بلکہ خدا کے فضل سے وہ جماعت کے استعمال میں بھی آرہے ہیں۔