مکرم سعید احمد طاہر صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 11 جنوری 2019ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16نومبر 2012ء میں مکرم کلیم احمد طاہر صاحب نے اپنے ایک مضمون میں مکرم سعید احمد طاہر صاحب (شہید لاہور) کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ مَیں سعید سے 1995ء میں متعارف ہوا جب میری تقرری تخت ہزارہ ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ ایک روز بہت ہی سادہ مگر پُرخلوص نوجوان مسجد میں آیا اور بتایا کہ وہ لاہور میں کام سیکھ رہا ہے۔ بعد میں سعید کے ساتھ رشتہ داری بھی ہوگئی۔ میرا مشاہدہ تھا کہ سعید بے شمار خوبیوں کا مالک تھا۔ جب بھی تخت ہزارہ آتا تو ہردینی پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا اور دوسروںکو بھی تحریک کرتا۔ اس کی ڈائریوں میں کئی جگہ یہ دعا ملتی ہے کہ کہ خداتعالیٰ مجھے شہادت کی موت دینا۔ باجماعت نماز کا عادی تھا۔ اگر کسی وجہ سے مسجد نہ جاسکتا تو گھر میں باجماعت ادا کرتا، فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کے التزام کی بھی پوری کوشش کرتا۔ ورکشاپ میں بھی قرآن کریم رکھا ہوا تھا۔ اپنی اہلیہ کو بھی نماز اور قرآن پڑھنے میں باقاعدگی اختیار کرنے اور دکھی لوگوں کا خیال رکھنے کی نصیحت کرتا۔ سعید کی بہن بیان کرتی ہیں کہ میں حیران ہوتی تھی کہ بھائی کو کتنی بھی مصروفیت ہوتی، کتنے بھی تھکے ہوئے ہوتے، اتنے انہماک سے نماز پڑھتے کہ نہ ان کو کسی کی باتوں کی پرواہ ہوتی، نہ بچوں کا شور ڈسٹرب کرتا۔
شہید مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ تخت ہزارہ میں ہائی سکول نہ تھا اس لئے سعید میٹرک کا امتحان دینے کے لئے اپنے چچا کے پاس لاہور آگئے مگر وہاں مناسب رویہّ نہ دیکھ کر اُن کے گھر کو خیر باد کہہ دیا اور اپنے پھوپھی زاد بھائی کی فیکٹری میں کام شروع کردیا۔ ٹھکانہ نہ ہونے کی وجہ سے دو تین راتیں فٹ پاتھ پر گزاریں۔ جب اُن کے پھوپھی زاد بھائی کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے اپنی فیکٹری میں ہی رہائش دے دی۔ بعد میں سعید نے اپنی ورکشاپ کھول لی۔ ہماری شادی 2004ء میں ہوئی تھی۔ مَیں نے بہت قریب سے دیکھا کہ وہ بہت ہمدرد، نیک دل، جماعت سے اور خلافت سے والہانہ عشق رکھنے والے تھے۔ جماعت کی طرف سے کوئی بھی تحریک ہوتی یا حلقہ کا کوئی پروگرام ہوتا تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، مرکز سے کوئی مہمان آجاتا تو اس کی خدمت کی خاطر اپنے کام سے چھٹی کر لیتے۔ کئی بار قائد صاحب کا آدھی رات کو فون آجاتا کہ کسی مریض کو بلڈ کی ضرورت ہے تو اپنی نیند چھوڑ کر فوراً چل پڑتے۔ مَیں نے کئی بار کہا کہ آپ اتنا بلڈ دیتے ہیں بیمار نہ ہوجائیں تو وہ فوراً کہتے کہ اگر میرے چند قطرے خون دینے سے کوئی جان بچ جائے تو اس سے بڑھ کر کیا بات ہوگی اور یہ کہ بندہ خون دینے سے کمزور نہیں ہوتا۔
اہلیہ مزید بتاتی ہیں کہ سعید کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ اکثر مربیان سے بھی اختلافی مسائل کے بارہ میں گفتگو کرتے رہتے۔ اکثر ایم ٹی اے دیکھتے اور کئی پروگرام ریکارڈ کرکے اپنی ورکشاپ پر جا کر دوستوں کو سنواتے۔ اپنے والدین کے بہت ہی فرمانبردار تھے اور اُن کی کوئی بات ٹالتے نہیں تھے اور صرف جی ہاں کہتے تھے۔ اپنی اکلوتی بہن کے بہت نخرے اٹھایا کرتے تھے، اُس کی شادی پر اپنے حالات کی وجہ سے کچھ زیادہ نہ کرسکے، بعد میں اللہ تعالیٰ نے کشائش عطا کی تو بہن کو تحفے دینے کے بہانے ڈھونڈتے۔ والدین میں سے کوئی بیمار ہوجاتا تو فوراً ان کو ہسپتال لے جاتے اور کوشش کرکے کسی بہت اچھے ڈاکٹر کو دکھاتے اور ان کو دوائی خود وقت پر اپنے ہاتھوں سے دیتے۔ اسی طرح اپنی ایک تایا زاد بہن کے ہاں اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ ایک بار سعید کو معلوم ہوا کہ وہ ہاتھ سے کپڑے دھوتی ہیں اور بہت تھک جاتی ہیں تو سعید نے ان کو ایک معقول رقم دی کہ آپ اپنے لئے واشنگ مشین خریدیں اور پھر دیکھاکہ ان کے گھر ٹی وی نہیں ہے تو ان کو ٹی وی خرید کردیا۔ سعید کا اپنے سسرال کے ساتھ بھی بہت اچھا برتائو تھا۔ شہادت سے تین ماہ قبل میرے والد صاحب کے لئے گھڑی خریدی اور ان کو جا کر بہت محبت سے تحفۃً پیش کی۔
سعید نے بہت خوش گوار عائلی زندگی گزاری۔ اپنی اہلیہ سے بہت محبت تھی اور ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خود ہی بہت خیال کرتا۔ گھر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹا دیتا۔ اہلیہ کے بھائی کو اپنے پاس رکھ کر اس کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی بہت کوشش کی۔
سعید کی بہن بیان کرتی ہیں کہ میری تین سالہ بچی آگ لگنے سے کافی جھلس گئی۔ مَیں نے بھائی کو نہ بتایا مگر ایک ہمسایہ نے سعید کو فون کرکے بتادیا۔ بھائی نے اُسی وقت ورکشاپ بند کی، ایک ڈاکٹر سے دوائیں پوچھ کر خریدیں اور پھر میری امی اور بھابھی کو لے کر رات ایک بجے میرے پاس گائوں پہنچے۔ بچی کو دوائی وغیرہ لگائی۔ اگلی صبح بچی کو ہسپتال لے گئے اور اس کا باقاعدہ علاج کروایا۔
سعید بہت ایماندار تھا۔ ایک بار کسی سابق وزیر کی گاڑی ورکشاپ پر آئی اور ڈرائیور نے بتایا کہ اس میں الیکٹرک سیٹ فِٹ کرنی ہے۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ بڑی بڑی ورکشاپوں والے تو اس میں ناکام ہی ہوئے ہیں اس لئے مالکان نے بیرون ملک سے کاریگر بلوانے کا سوچا ہے جس کا معاوضہ دو لاکھ روپے طے ہوا ہے۔ سعید نے اُس کو کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں۔ پھر چند دن سوچ بچار، محنت اور انٹرنیٹ کی مدد سے سعید نے وہ سیٹ فٹ کردی۔ لیکن معاوضہ صرف چھ ہزار روپے لیا اور بتایا کہ مَیں اپنی محنت کے صرف جائز پیسے لوں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں