مکرم شاہ عالم صاحب شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍جنوری 2004ء میں مکرم شاہ عالم صاحب شہید بنگلہ دیش کا ذکر خیرکرتے ہوئے مکرم محمد امداد الرحمن صدیقی صاحب مربی سلسلہ تحریر کرتے ہیں کہ آپ 4؍اگست 1989ء کو بیعت کرکے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔ اس کی تقریب اس طرح پیدا ہوئی کہ جب آپ کے گاؤں راگھوناتھپور باغ کے دو نوجوانوں نے احمدیت قبول کی۔ لوگوں کی شکایت پر آپ نے اُن دونوں کو بلایا اور بات چیت کے بعد اُن سے پوچھا کہ احمدیت کے بارہ میں مزید معلومات کہاں سے مل سکتی ہیں۔ اُن نوجوانوں کے بتانے پر آپ کھلنا میں واقع احمدیہ مسجد میں آئے جہاں مَیں تعینات تھا۔ گفتگو کے بعد آپ نے قبول احمدیت پر آمادگی ظاہر کی۔ مَیں نے سمجھایا کہ اتنی جلدی نہ کریں تو فرمایا کہ اگر بیعت کرنے سے پہلے موت آگئی تو کون ذمہ دار ہوگا۔ چنانچہ بیعت ہوئی۔
مکرم شاہ عالم صاحب کے آباء و اجداد ضلع ’’چاندپورکوملا‘‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد مکرم واحد علی موڑل صاحب بعض دیگر افراد کے ساتھ ہجرت کرکے راگھوناتھپور آگئے۔ آپ کے والد نے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کردیا چنانچہ آپ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرکے ایک مدرسہ میں درس و تدریس میں مصروف تھے کہ اسی دوران احمدیت قبول کرلی۔ آپ بہت بہادر، دیانت دار اور نافع الناس وجود تھے۔ مسائل میں الجھے ہوئے لوگ آپ کے پاس آتے اور تسکین پاتے۔ قریبی دیہات میں آپ نے کئی مدارس بھی قائم کئے۔ علاقہ میں آپ کا بہت اثر تھا۔ علماء کی انجمن کے سرگرم رکن تھے۔ کئی مولویوں کو مدرسہ میں نوکری آپ کی سفارش سے ملی۔ احمدی ہونے کے بعد یہ سارے سلسلے منقطع ہوگئے۔
آپ کی تبلیغ سے بہت جلد وہاں مضبوط جماعت قائم ہوگئی اور پہلی ہی نشست میں آپ کے تقریباً سارے خاندان سمیت پچاس افراد نے احمدیت قبول کی۔ تین سال میں علاقہ کے دو سو سے زائد افراد احمدی ہوچکے تھے۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری تھا۔ آپ اپنی جماعت کے بانی صدر بھی تھے۔ اپنی زمین کے ایک حصہ پر احمدیہ مسجد بنوالی، آپ ہی امام الصلوٰۃ تھے۔ اپنی زمین کے ایک حصہ کو احمدیہ قبرستان کے لئے بھی مخصوص کیا۔
آپ ایک عالم تھے اور اگرچہ بہت بہادری سے مخالفت کا مقابلہ کرتے تھے لیکن شہادت کے روز غیرمعمولی طور پر دشمنوں سے نرمی سے پیش آئے اور اُن کے تشدد کے باوجود انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ 31؍اکتوبر 2003ء کا دن تھا اور رمضان کا چوتھا روزہ جب نماز جمعہ کے بعد ایک مولوی کی سرکردگی میں ایک سو سے زائد افراد نے احمدیہ مسجد پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی اور آپ کو احمدیت چھوڑنے کے لئے دباؤ ڈالا۔ آپ دلائل سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے حملہ کرکے شدید زخمی کردیا۔ جب آپ کو ہسپتال لے جانے کی کوشش کی گئی تو بھی شرپسندوں نے راستہ میں رکاوٹ ڈالی۔ چنانچہ آپ ہسپتال کے راستہ میں ہی شہید ہوگئے۔ آپ کی شہادت کی خبریں تمام قومی اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئیں اور متعدد اخبارات میں اداریے اور کالم شائع ہوئے۔ بہت سے بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے ٹی وی اور ریڈیو چینلز نے بھی بار بار یہ خبر نشر کی۔
آپ نے اپنی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی پسماندگان میں چھوڑے ہیں۔ آپ کی بیٹی تحریک وقف نو میں شامل ہے۔