مکرم شکیل احمد صدیقی صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍ستمبر 2005ء میں مکرم مقبول احمد صدیقی صاحب نے ایک مضمون میں اپنے بھائی مکرم شکیل احمد صدیقی صاحب کے حالات زندگی اور اعلیٰ اخلاق پر روشنی ڈالی ہے۔
1990ء کے رمضان المبارک میں مکرم شکیل صدیقی صاحب نے مسجد بیت الحمد سمن آباد لاہور میں اعتکاف کیا اور پھر میٹرک کے بعد تربیتی کلاس ربوہ میں شمولیت اختیار کی تو یہاں تقریری مقابلہ میں آپ کی تقریر سُن کر ایک مربی سلسلہ نے آپ کو مربی سلسلہ بننے کی تجویز دی۔ چنانچہ آپ نے والدین کی رضامندی اور اجازت سے زندگی وقف کردی اور 1991ء میں جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔
آپ کی شادی مورخہ یکم نومبر 1998ء کو محترمہ بشریٰ طیبہ صاحبہ بنت مکرم ناصر احمد صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ ہوئی۔ آپ نے بیوہ کے علاوہ ایک کمسن بیٹی بھی یادگار چھوڑی۔
دعوت الی اللہ بہت شوق سے کرتے اور اپنی ذمہ داری کو سمجھتے تھے۔ بورکینا فاسو قیام کے دوران ہی دوبار جلسہ سالانہ لندن میں شمولیت کی توفیق ملی۔ ایک بار آپ کے بھائی نے مزید چھٹیاں لے کر لندن میں قیام کرنے کو کہا تو آپ نے جواب دیا کہ میں مربی سلسلہ ہوں ہمارا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے جماعت نے ہم پر بہت پیسہ خرچ کیا ہوتا ہے اور ہمیں جماعت کی توقعات پر پورا اُترنا ہوتا ہے۔
آپ پر ایک بہت کٹھن مرحلہ اس وقت آیا جب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دورہ افریقہ 2004 ء کے دوران بورکینا فاسو میں آپ کے شہر بوبوجلاسو میں آپ کے گھر آنا تھا۔ اچانک آپ کی اہلیہ جوان دنوں امید سے تھی شدید بیمار ہوگئیں۔ اگلے روز حضور کی آپ کے ہاں آمد تھی۔ حضور کی آمد کا خیال پھر بیگم کی شدید بیماری خیال اور پھر اپنی ننھی 3سالہ بیٹی غزالہ شکیل کو سنبھالنے کا خیال۔ پھر حضور کی آمد سے چند گھنٹے پہلے آپ کو یہ دکھ بھری خبر بھی ملی کہ آپ کا بیٹا فوت ہوگیاہے۔ آپ نے اپنے بیٹے کو دفنایا اور استقبالیہ انتظام میں مصروف ہوگئے۔ حضور انور نے آپ کی اس قربانی کا یوں ذکر فرمایا ہے کہ ’’جب میں دورے پر گیا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ یہ مستقل خدمت پہ تھے باقی بھی تھے لیکن ان کی اہلیہ ان دنوں میں بہت بیمار ہوگئیں اور ہسپتال میں داخل تھیں اس کے باوجود جو ان کے ذمے کام تھا وہ پوری طرح کرتے رہے ہسپتال میں بھی دوڑ کے جاتے تھے پھر آکے کام کرتے تھے اور پھر دوسروں کو یہ احساس نہیں دلواتے تھے کہ مجھے مجبوریاں ہیں اور پھر بھی میرے سے کام کروایا جارہا ہے بلکہ خوشی سے یہ کام کررہے تھے باوجود یہ کہنے کے کہ آپ زیادہ اہلیہ کی فکر کریں، کھانے پینے کی ان کو کوئی فکر نہ ہوتی تھی‘‘۔
حضور انور نے آپ کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ ’’بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والے تھے‘‘۔ چنانچہ جب تک آپ بورکینا فاسو رہے ہر سال باقاعدگی سے خون کا عطیہ دیتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ ہومیوپیتھی کے ذریعے بھی خدمت خلق جاری رکھتے۔ ایک چھوٹی عمر کی بیوہ لڑکی گھر کے کام کاج کے لئے آپ کے ہاں ملازمہ تھی۔ آپ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ آپ مجھے کہتے کہ پہلے اسے کھانا کھلاؤ پھر ہم کھانا کھائیں گے۔ اس طرح جب آپ کی بیگم روٹیاں پکانے لگتیں تو آپ انہیں کہتے کہ چند مزید روٹیاں پکا لو تاکہ باہر جو بچے بھوکے ہوں انہیں روٹی میسر آجائے۔ اور یہ کام اپنی بیٹی غزالہ سے کرواتے۔ ددراگو میں پانی کی شدید قلّت تھی۔ چنانچہ آپ نے اپنے بڑے بھائی مکرم مبشر احمد صدیقی صاحب آف لندن سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہاں ایک مسجد تعمیر کرکے نلکہ بھی لگوایا جائے۔ آپ کی یہ خواہش قریباً پایہ تکمیل تک پہنچ چکی ہے۔ آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے دریغ خرچ کیا کرتے تھے۔
دوالمیال میں قیام کے دوران بھی آپ نے گھر میں ہی ہومیوپیتھی ڈسپنسری بنا رکھی تھی جہاں سے آپ مریضوں کو مفت ادویہ دیتے۔
بہت صابر و شاکر تھے۔ جب آپ کو یرقان ہوا اور بیماری قابل فکر ہوگئی تو اپنی وفات سے محض دو دن قبل اپنے ایک بھائی کو اطلاع دی کہ میں بہت بیمار ہوں۔ یہ خط آپ کی وفات کی اطلاع سے ایک گھنٹہ قبل ملا۔ آپ کی وفات کی فوری اطلاع حضور انور کو دی گئی اور حضور نے ازراہ شفقت آپ کی اہلیہ کو فون کیا جنہیں ابھی تک اپنے شوہر کی وفات کی اطلاع نہ دی گئی تھی۔ حضور نے ہی انہیں وفات کی اطلاع دی اور صبر کی تلقین کی۔ پھر اپنے ہاتھ سے انہیں تعزیت کا خط بھی لکھا۔ آپ کے والد کے نام اپنے خط میں حضور انور نے لکھا: ’’یہ بڑا اعزاز پانے والا بچہ تھا جو مجاہد بھی تھا غازی بھی تھا اور شہید بھی ہے۔ وہ یقینا ان لوگوں میں سے تھا جو جان کی بازی لگادیتے ہیں لیکن قول کو پورا کرکے چھوڑتے تھے۔ وہ یقینا ان لوگوں میں سے تھا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان کو مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں … اس کا تو لمحہ لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کے دین کی اشاعت کیلئے وقف تھا‘‘۔
مکرم شکیل صدیقی صاحب کی میت بورکینا فاسو سے بذریعہ سڑک پہلے غانا لائی گئی جہاں سے بذریعہ جہاز پانچ یوم کے بعد ربوہ پہنچی۔ آپ کی والدہ نے دو سال قبل ایک خواب دیکھا تھا کہ باہر سے شکیل کے کپڑے تو آئے ہیں مگر وہ نہیں آیا اور آپ کپڑوں پر ہاتھ پھیر کر کہتی ہیں کہ پھول تم پر فرشتے نچھاور کریں۔