مکرم شکیل احمد صدیقی صاحب
مکرم شکیل احمد صاحب صدیقی مربی سلسلہ برکینافاسو
(ابن مکرم بشیر احمد صدیقی صاحب) یرقان کے حملہ کی وجہ سے یکم فروری 2005ء کو بورکینافاسو میں بعمر 29 سال وفات پاگئے۔ آپ حضرت حکیم محمدصدیق صاحبؓ آف میانی کے پوتے تھے۔
مکرم صدیقی صاحب 11؍اکتوبر 1974ء کو ربوہ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کے بعد وقف کر کے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ 1996ء میں جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد دو ماہ نظارت اصلاح و ارشاد میں کام کیا اور پھر دوالمیال ضلع چکوال میں ساڑھے تین سال خدمات سرانجام دیں۔ جنوری 2000ء میں وکالت تبشیر کے تحت 8ماہ تک فرانسیسی زبان سیکھی اور دیگر دفتری امور مکمل کئے۔ 15؍جنوری 2001ء کو آپ کو بورکینا فاسو میں خدمت دین کے لئے بھجوایا گیا۔
آپ کی وفات پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، ان میں بڑی اطاعت کا جذبہ تھا۔ بہت محنتی تھے، بڑی غیرت رکھنے والے تھے۔ اللہ کے نام کی غیرت رکھنے والے تھے اور بے نفس آدمی تھے، ہر وقت مسکراتے رہتے تھے۔ وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو امانتوں کا بھی حق ادا کرتے ہیں اور اپنے عہدوں کا بھی حق ادا کرتے ہیں۔ اور اس لحاظ سے میدان عمل میں ان کی وفات ایک شہید کی موت ہے۔ جو کبھی مرا نہیں کرتے۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍مارچ 2005ء میں مکرم محمود ناصر ثاقب صاحب امیر جماعت احمدیہ بورکینافاسو نے مرحوم کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھا کہ مرحوم انتہائی ملنسار، بااخلاق اور ہر ایک سے محبت کرنے والے وجود تھے۔ جامعہ کے دوران تنظیمی کاموں میں بھی بڑی مستعدی سے حصہ لیتے۔ دعوت الی اللہ میں ہمیشہ کوشاں رہتے، ربوہ کے گردونواح میں بھی تبلیغ کے لئے نکلتے، سفر کے دوران گاڑی وغیرہ میں بھی اس فریضہ کو احسن رنگ میں سر انجام دیتے۔
19جنوری 2001ء کو آپ بورکینا فاسو پہنچے۔ کچھ عرصہ مرکزی مشن ہاؤس واگا ڈوگو میں قیام کے بعد آپ کا تقرر ددراگو شہر کر دیا گیا۔ اس شہر کے گردونواح میں پختہ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے سفر انتہائی مشکل ہے لیکن جس جانفشانی سے مکرم شکیل صاحب نے اس علاقہ میں خدمت کی توفیق پائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بلاخوف وخطر راستے کی مشکلات کو پس پشت ڈالتے ہوئے جس جذبہ سے آپ نے خدمت کی وہ بیان سے باہر ہے۔اپنے ریجن میں آپ نے مقامی لوگوں کو بہت زیادہ محبت دی۔ آپ کی محبت مقامی لوگوں سے اس قدر تھی کہ ہر کوئی جتا تا کہ میرا تعلق اس سے زیادہ ہے۔
میٹنگ ، جلسے اور اجتماعات کے مواقع پر آپ سب سے خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے موقع پر اگر آپ کا ریجن کسی مقابلہ میں کامیابی حاصل کرتا تو خدام بھاگ کر آپ کو کندھوں پر اٹھالیتے۔ مقامی لوگوں کے ساتھ فرنچ زبان کے علاوہ لوکل زبانوں میں ان کا حال پوچھتے، ہلکے پھلکے چٹکلے کرتے۔ دُور دراز کے علاقوں میں جنگلات میں مقامی لوگوں کے ساتھ رات قیام کرتے، زمین پر سوتے اور انتہائی بے تکلفانہ انداز سے پیش آتے۔ حتی المقدور لوگوں کی تکالیف دُور کرنے میں بھی کوشاں رہتے۔ ہر ریجن کے لوگ یہ خواہش ظاہر کرتے کہ اس مربی کو ہمارے ہاں ہونا چاہئے۔ تمام مربیان کے ساتھ بھی انتہائی پیار کا تعلق تھا۔ ہر ایک کو بھائی کہہ کر بلاتے۔ ہمیشہ اچھا مذاق کرتے کبھی تکلیف دہ مذاق نہ کرتے۔ مربیان میں بھی ہر دلعزیز تھے۔ اتنی محنت کرتے تھے کہ ہم مربیان کو بھی ان پر رشک آتا تھا۔ بورکینا فاسو کے ہر احمدی کا دل اس بھائی کی جدائی پر آج مغموم ہے۔