مکرم شکیل احمد صدیقی صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍اکتوبر 2005ء میں شامل اشاعت اپنے مضمون میں مکرم حامد مقصود عاطف صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ سب سے اعلیٰ خوبی جو مَیں نے مشاہدہ کی وہ مکرم شکیل صدیقی صاحب کا خلافت سے عشق تھا۔ حضور انور کے دورۂ بوبوجلاسو کے دوران ان کی اہلیہ شدید علیل اور ہسپتال میں داخل تھیں۔ بعض اوقات انہیں زبردستی ہسپتال بھجوایا جاتا تو بھی وہ راستہ میں اور ہسپتال پہنچ کر بھی بذریعہ فون انتظامات کا جائزہ لیتے۔ کھانے کا ہوش نہ کپڑے بدلنے کا وقت ملتا۔ جب بھی ہسپتال سے آتے تو یہی کہتے: دعا کریں ہماری کسی کوتاہی کے سبب حضور انور کو یہاں تکلیف نہ ہو۔
جب بھی ریجن کی جماعتوں میں سے کوئی دوست ملنے کے لئے شہر آتا تو نہایت ہی خوش اخلاقی اور محبت سے ایسے ملتے جیسے برسوں بعد ملاقات ہوئی ہو۔ کہا کرتے تھے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کیا ہے۔ یہ تو ہمارے سگے رشتہ دار ہیں۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں آنے والے احباب کی ساری تھکن دُور ہوجاتی۔
دوسروں کے جذبات کا خاص خیال رکھتے۔ ایک رات میرے پاس آئے تو چہرہ متغیر تھا۔ کہنے لگے کہ آج میں نے مشن کے ایک کارکن کو اس کی غلطی پر جھاڑ پلادی ہے حالانکہ وہ ایک اچھا کارکن ہے۔ میں نے عرض کیا کہ کوئی بات نہیں انتظامی امور میں ایسا ہوجاتا ہے۔ مگر انہوں نے کہا کہ آپ کی بات ٹھیک ہے مگر ابھی اس کے گھر جانا ہے اور اس کی دلداری کرنی ہے تاکہ اس کی پریشانی میں کمی ہو۔ چنانچہ ہم دونوں اسی وقت اس کے گھر گئے اور وہ کارکن ہمیں دیکھ کر آبدیدہ ہوگیا۔
بہت ہی زیرک انسان تھے۔ کسی بھی معاملہ کو سن کر فوراً اس کی تہہ تک پہنچ جاتے۔ میں اکثر کہا کرتا کہ آپ تو بہت تیز ہیں۔ مگر میں اس حقیقت سے بے خبر تھا وہ اس قدر تیز ہوں گے کہ ہم سب سے آگے نکل کر قربانی کے اعلیٰ وارفع مقام پر فائز ہوں گے۔
بورکینا فاسو کے ایک دُور دراز گاؤں کے ایک احمدی امام کو خواب میں آپ کی وفات کی اطلاع دی گئی۔ انہوں نے دیکھا کہ آپ نے نہایت ہی اجلے اور سفید کپڑے پہن رکھے ہیں اور چہرہ چمک رہا ہے اور مسجد بیت احمدیہ بوبوجولاسو کے مین گیٹ میں کھڑے ہیں اور لوگوں کا ایک جم غفیر موجود ہے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک بینر پر لکھا ہوا ہے: ’’اللہ اکبر۔ اللہ راضی‘‘۔ اور اس کے بعد آپ چلتے ہوئے مسجد میں جاتے ہیں اور پھر نظر نہیں آتے۔ اس پر ان کی آنکھ کھل گئی۔