مکرم شیخ ساجد نعیم صاحب شہید

لجنہ اماء اللہ کینیڈا کے رسالہ ’’النساء‘‘ ستمبر تا دسمبر 2011ء میں محترمہ امتہ الباسط صاحبہ نے اپنے خاوند مکرم شیخ ساجد نعیم صاحب کا ذکرخیرکیا ہے جنہوں نے 28مئی 2010 ء کو مسجد بیت النور لاہور میں جام شہادت نوش کیا۔
مکرم شیخ ساجد نعیم صاحب 15دسمبر 1951ء کو میلسی ضلع وہاڑی میں مکرم شیخ امیر احمد صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آباء اجداد کا تعلق بھیرہ سے تھا۔ ننھیال کی طرف سے آپ کاتعلق حضرت شیخ مہرعلی صا حبؓ کے خاندان سے تھا جن کی حویلی بمقام ہوشیارپور میں حضرت مسیح موعودؑ نے چلّہ کشی کی تھی۔ ننھیال میں آپ کے نانا محترم شیخ عمر دین صاحب اور ددھیال میں آپ کے تایا مکرم خواجہ محمدعثمان صاحب سب سے پہلے احمدی ہوئے جنہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ کے والد بھی اُن کے ہمراہ تھے اور اُس وقت بچے تھے اور انہیں حضورؓ کی گود میں بیٹھنے کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔
ساجد صاحب کے پانچ بھائی ہیں جن میں سب سے بڑے مکرم مبشر لطیف احمد صاحب قریباً بیس برس اپنے حلقہ فیصل ٹاؤن لاہور کے صدر رہے اور اِس وقت احمدی وکلاء کی تنظیم کے لاہور چیپٹر کے صدر ہیں۔
ساجد صاحب نے ابتدائی تعلیم میلسی سے حاصل کی پھر ملتان سے میٹرک اور F.A. کیا۔ B.A. لاہور سے کیا۔ 1976ء میں مسلم کمرشل بینک میں ملازمت شروع کی۔ مختلف شہروں میں تعینات رہے اور 2003ء میں بطور اسسٹنٹ مینیجر ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر بچوں کی تعلیم کی خاطر لاہور میں مقیم ہوگئے۔
دفتری معاملات میں ساجد صاحب کا کردار مثالی تھا۔ اپنے 27 سالہ دورِ ملازمت میں وقت کی پابندی کا بہت خیال رکھا۔ اپنے فرائض ذمہ داری،فرض شناسی اور ایمانداری سے ادا کئے۔ اگرچہ احمدی ہونے کی وجہ سے ترقی روک لی جاتی لیکن آپ نے فرائضِ منصبی میں کوتاہی نہیں کی۔ بڑے متقی اور نیک فطرت انسان تھے۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر غلط بیانی سے کام نہیں لیا۔ بچوں کو بھی ہمیشہ دیانتداری، فرض شناسی اور صداقت کی تلقین کی۔ اپنی احمدیت کبھی نہیں چھپائی بلکہ اگر کسی عزیز نے ایسا کیا تو آپ نے اس عمل پر ناگواری کا اظہار کیا۔
عبادات میں کوئی دکھاوا نہیں تھا۔ نماز بہت سنوار کر پڑھا کرتے۔ قرآن کریم کی تلاوت غور و فکر سے کرتے۔ 27 مئی 2008ء (صدسالہ خلافت جوبلی یوم تشکر) سے تہجد کا باقاعدہ آغاز کیا جو نہایت خشوع و خضوع سے ادا کرتے۔ ایم ٹی اے پرخطبہ جمعہ بڑے اہتمام سے سنتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔
ساجد صاحب کی زندگی کا زیادہ عرصہ میاں چنوں میں گزرا۔ اپنی جماعت کے صدر اور زعیم انصار اللہ بھی رہے۔ مالی قربانی میں پیش پیش تھے۔ چندوں کی ادائیگی اوّلین وقت میں کرتے۔ 2003ء میں لاہور آکر بھی بھرپور خدمت کی توفیق پائی۔ اپریل 2010ء میں ایک ماہ کے لئے وقف عارضی بھی کیا۔ اکتوبر میں دوبارہ وقف عارضی پر جانے کا ارادہ تھا۔ قادیان جلسہ پر جانے کی درخواست بھی منظور ہوچکی تھی۔
عائلی معاملات میں ساجد صاحب کا کردار مثالی تھا۔ آپ انصاف پسند،کم گو اور صاف گو انسان تھے۔ قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔ ہر ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتے لیکن کبھی جھوٹا وعدہ نہیں کیا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت سے لے کر شادی بیاہ کے معاملات تک تمام کام ہم دونوں نے باہمی رضا مندی سے کئے۔ ہم نے کبھی بھی ایک دوسرے سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھی تھی۔
آپ کم گو تھے لیکن شہادت سے قبل تین چار دن بہت باتیں کیں۔اپنے بہن بھائیوں، رشتہ داروں، میرے بہن بھائیوں اور ان کے بچوں کے بارے میں۔ آپ کا تعلق اپنے سسرالی رشتے داروں کے ساتھ بھی بڑا مخلصانہ تھا۔ میرے والدین کو ہمیشہ اپنے ماں باپ کی طرح اور میرے بھائی بہنوں کو اپنے بھائی بہنوں کی طرح سمجھا۔ بچوں کے ساتھ ان کارویّہ دوستانہ اور مشفقانہ تھا۔سب بچے بھی آپ سے بہت پیار کرتے تھے۔
دوستوں کے بارہ میں کہا کرتے کہ دوست کم بناؤ لیکن اچھے دوستوں کا انتخاب کرو اور پھر اُن کے ساتھ مخلص رہو۔ آپ خود دوستوں اور اُن کے بچوں سے بھی بڑے پیار سے پیش آتے تھے۔
تعلیم اور تربیت کے سلسلے میں بیٹوں اور بیٹی میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں رکھی۔ بچوں کو بھرپور توجہ،محبت،اور شفقت سے نوازا اور ہر جائز خواہش کو پورا کیا۔
حقوق العباد کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ ہر کسی سے ہمدردی کی۔ ہمسایوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا۔ خدمتِ خلق کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ سفیدپوشوں کی خدمت حسبِ توفیق کرتے رہتے۔ بڑے نرم دل انسان تھے کسی کی ذرا سی تکلیف کو دیکھ کر پریشان ہو جاتے تھے۔دعوتِ الی اللہ بڑی پا بندی اور خلوص سے کر تے ۔
مطالعہ کا شوق تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ شوق خوب پورا کیا۔ الفضل اور کتب حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ بہت سی کتابیں زیر مطالعہ رہیں۔ شہادت سے چند دن پہلے تفسیر کبیر کا مطالعہ بھی شروع کیا تھا۔ 2009ء میں مقالہ ’’ہستی باری تعالیٰ‘‘ تحریر کیا جس کے بعد ایسا لگتا تھا کہ ان کا تعلق خُدا تعالیٰ سے زیادہ گہرا ہو گیا ہے۔
اپنی اکلو تی بیٹی کو شادی سے قبل آپ نے نصیحت کی کہ اپنے سسرال والوں کے ساتھ ہمیشہ مل جل کر رہنا اور ان کی باتوں کو ہماری بات سے زیادہ اہمیت دینا اور سب کا خیال اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی طرح کرنا۔ اور مجھے یہ کہا کہ کبھی بیٹی اور داماد کے کسی معاملے میں دخل نہیں دینا۔
ساجد صاحب بڑے نرم دل اور ہمدرد انسان تھے۔ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر بہت جلد گھبرا جاتے تھے۔ لیکن 28مئی کے سانحہ میں انہوں نے بڑی جوانمردی سے حالات کا مقابلہ کیا اور لوگوں کی جان بچاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ چنانچہ حملہ شروع ہونے کے قریباً بیس منٹ بعد انہوں نے اپنے چھوٹے بیٹے سے فون پر بات کی۔ آپ کی آواز سے کسی پریشانی کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔ چند لمحوں کے بعد دہشتگردوں کو اپنی طرف آتے دیکھ کر پچھلے ہال کا دروازہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر بند کیا۔ اس دوران ہال میں موجود دوسرے افراد تہ خانے اور مربی ہاؤس جانے میں کامیاب ہو گئے لیکن دروازہ صحیح طرح بند نہ ہونے کی وجہ سے دہشتگردوں کی ایک گولی ساجد صاحب کے سینے کے بائیں طرف کندھے کے قریب لگی جس سے آپ کی شہادت ہوئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ (فرمودہ 18؍جون 2010ء) میں آپ کا ذکرِ خیر کیا۔
محترم نعیم ساجد صاحب کی تدفین 29؍جون کو ربوہ میں ہوئی۔ آپ نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں