مکرم شیخ محمود احمد صاحب شہید آف مردان
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12 نومبر 2010ء میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق 8نومبر 2010ء کی رات پونے آٹھ بجے مکرم شیخ محمود احمد صاحب آف مردان اپنے بیٹے مکرم شیخ عارف محمود صاحب کے ہمراہ موٹرسائیکل پر اپنی دکان سے واپس گھر آرہے تھے کہ گھر کے قریب نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کر دی اور فرار ہوگئے۔ اس حملہ کے نتیجہ میں تین فائر مکرم شیخ محمود احمد صاحب کو لگے اور وہ موقع پر ہی شہید ہوگئے جبکہ ایک گولی ان کے بیٹے مکرم عارف محمود صاحب کے کولہے میں لگی اور اس نے مثانہ اور بڑی آنت زخمی کر دی۔
محترم شیخ محمود احمد صاحب شہید کے دادا حضرت شیخ نیاز دین صاحبؓ نے 1907ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے دستِ مبارک پر بیعت کی تھی جبکہ مرحوم کے والد مکرم شیخ نذیراحمد صاحب نے 1932ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کی تھی۔ یہ خاندان کوئٹہ کا رہنے والا تھا۔ 1935ء میں کوئٹہ میں زلزلہ کے بعد یہ خاندان ہجرت کرکے مردان آگیا اور یہاں کاروبار شروع کر دیا۔ تجارت پیشہ اور احمدی ہونے کی وجہ سے مردان میں آپ کو ہمیشہ مصائب و مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
مکرم شیخ محمود احمد صاحب سات بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ شہید مرحوم اور ان کے سب بھائیوں کو مختلف اوقات میں تقریباً 20 جماعتی مقدمات میں اسیر راہ مولیٰ ہونے کی توفیق ملی۔ شہید مرحوم کے دو بھائیوں کو ایک جماعتی مقدمہ میں عدالت نے پانچ سال قید کی سزا سنائی حالانکہ مذکورہ مقدمہ کی زیادہ سے زیادہ سزا تین سال تھی اور اسی بنا پر بعد میں ہائیکورٹ سے بری ہوئے۔ اس کے علاوہ مرحوم کے ایک بھائی مکرم شیخ مشتاق احمد صاحب مرحوم کو 1974ء میں انتظامیہ نے ضلع بدر کر دیا تھا۔ احمدیہ مسجد مردان پر دو ماہ قبل ایک خودکش حملہ بھی ہوا تھااور اس سانحہ میں آپ کے بھتیجے مکرم شیخ عامررضا صاحب شہید ہو گئے تھے۔
1974ء میں قومی اسمبلی میں جماعت کے حوالہ سے کارروائی جاری تھی کہ مخالفین کے مطالبہ پر ایک کتاب کی حوالہ کے طور پر ضرورت پیش آئی جو بظاہر میسر نہ تھی۔ مرحوم اِن دنوں اسلام آباد میں تھے۔ آپ کو علم ہوا تو مردان جا کر کسی لائبریری سے مطلوبہ کتاب لاکر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں پیش کردی۔ اس کے بعد ایک اور کتاب کی ضرورت پیش آئی تو آپ دوبارہ مردان گئے اور کتاب لے آئے۔
2008ء میں مرحوم کو معاندین احمدیت نے اغوا کر لیا تھا اور 22روز بعد 20لاکھ روپے تاوان دے کر رہائی عمل میں آئی تھی۔ پہلے تو اغواء کنندگان کا رویہ نہایت متعصبانہ تھا تاہم آپ کا کردار، نماز تہجد اور دیگر نمازوں کی ادائیگی دیکھ کر رویے میں تبدیلی آئی اور ٹھنڈے پانی اور پنکھے وغیرہ کی سہولت دے دی۔
اغوا کے واقعہ کے قریباً تین ماہ بعد آپ کی دکان کو بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم خدا کے فضل سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ مرحوم کے ایک بھائی مکرم شیخ جاوید احمد صاحب کی دکان پر 5؍ مارچ 2010ء کو دھماکہ کیا گیا۔ دونوں واقعات میں اللہ تعالیٰ نے جانی نقصان سے محفوظ رکھا۔
شہید مرحوم کی عمر 58سال تھی اور تعلیم بی اے تھی۔ آپ فعّال داعی الی اللہ تھے۔ نماز تہجد اور نماز پنجگانہ کے پابند تھے۔ بااخلاق اور باعمل احمدی تھے۔ حضور انور کے خطبات سننے کی سختی سے خود بھی اور بچوں سے بھی پابندی کرواتے تھے۔ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ آپ نے مردان شہر میں مختلف مقامات پر رفاہ عامہ کی غرض سے پانچ الیکٹرک واٹر کولر لگوائے تھے۔
آپ نے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ ذکیہ بیگم صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔