مکرم صاحبزادہ سید عبداللہ شاہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23اپریل 2010ء میں مکرم صاحبزادہ سید عبداللہ شاہ صاحب کے بارہ میں مکرم ڈاکٹر طارق احمد مرزا صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔

ڈاکٹر طارق احمد مرزا صاحب

مکرم صاحبزادہ سید عبداللہ شاہ صاحب سابق سیکرٹری امور عامہ نوشہرہ کینٹ، پولیس میں ملازم تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد نوشہرہ میں ایک تکہ شاپ چلانے لگے جو علاقہ بھر میں انتہائی مشہور ہوئی۔
مکرم شاہ صاحب صوبہ سرحد کے علاقہ برگ میں صاحبزادہ سید عبدالحق کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ نواب انبؔ نے آپ کے علاقہ پر چڑھائی کرکے لوگوں کی املاک و جائداد پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ چنانچہ آپ اپنے بھائی کے ہمراہ ٹوپی آگئے اور مختلف مقامات پر پناہ گزین رہے۔ مرورِ زمانہ، معاشی تنگی اور مناسب راہنمائی نہ ہونے کے باعث جرائم کی دنیا کا رُخ کیا اور ’’شاہ جی ڈاکو‘‘ کے نام سے صوبہ سرحد کے علاقہ غیر میں شہرت پائی۔ اسی دوران آپ کو کچھ ایسی مبشر رؤیا آئیں جنہوں نے آپ کے دل کی کایا پلٹ دی۔ پھر احمدیت سے متعارف ہوکر یہ قانون شکن ڈاکو توبۃالنصوح کرکے قانون خداوندی کا پابند اور ملکی قانون کا پاسدار بن گیا۔ یہ مراحل آسان ہرگز نہ تھے مگر خدا کے فضل سے آپ ثابت قدم رہے۔ قبول احمدیت سے قبل کی زندگی کو یاد کرکے اکثر روتے، ندامت اورتأسف کا اظہار کیا کرتے اور یہ شعر سناتے:

در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری
وقتِ پیری گرگ ظالم مے شود پرہیزگار

آپ خوش شکل، خوش مزاج اور خوش لباس تھے۔ طبیعت بذلہ سنج اور متحمل تھی۔ سرخ و سفید رنگ، کسرتی جسم، اٹھتے ہوئے قدوقامت کے مالک تھے۔ آپ کی شخصیت میں ایک رعب اور وجاہت پائی جاتی تھی۔ چھوٹے بڑے سبھی راہ چلتے آپ کو ایک نظر رُک کر ضرور دیکھتے اور ادب سے سلام کرتے۔
نظام جماعت کے ساتھ وابستگی، خلافت کا ادب اور اطاعت اور جملہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ نوافل کا باقاعدہ اہتمام آپ کی زندگی کا خاصہ تھا۔ جب تک صحت نے اجازت دی تو روزانہ کم از کم تین نمازیں مسجد میں آکر ضرور ادا کرتے۔ انہوں نے چوکیدار کو ہدایت کی ہوئی تھی کہ اگر تہجد کا وقت ہو اور ان کی بیٹھک کی لائٹ روشن نہ ہو تو آواز دے کر انہیں جگا دیا کرے لیکن اس کی ضرورت شاید ہی کبھی پیش آئی ہو کیونکہ چوکیدار کی گواہی ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب نماز تہجد کے وقت مَیں نے ان کو بیدار نہ پایا ہو۔
مالی قربانی میں پیش پیش رہتے۔ روزانہ کی آمد کا حساب کرکے چندہ الگ لفافہ میں ڈال دیتے اور ہر تیسرے دن سیکرٹری مال کو دے کر رسید کٹوالیتے۔ اپنی دکان پر عام اخبار کے علاوہ الفضل اور دیگر جرائد بھی منگوا کر رکھتے۔ دعوت الی اللہ خوب کرتے۔ اس راہ میں لمبا عرصہ آزمائشوں کا سامنا بھی کیا اور آپ پر تین قاتلانہ حملے بھی ہوئے مگر ہر بار اللہ تعالیٰ نے آپ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا۔
نوشہرہ بازار کے خصوصاً دو افراد احمدیت دشمنی میں آپ کی جان کے درپے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نشان دکھلایا کہ ان میں سے ایک (جس نے آپ پر قاتلانہ حملہ کروایا تھا) ایک ٹریفک حادثہ میں مع اپنے جوان بیٹے کے مارا گیا جبکہ دوسرا آپ کی زندگی میں ناکام و نامراد رہ کر حسرت سے اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں نے احمدیت کی دشمنی اور حسد میں باپ کا ساجوش و خروش نہ اپنانے میں ہی عافیت محسوس کی۔
ایک بار ایک معاند نے اسسٹنٹ کمشنر کو اُکسایا کہ اس قادیانی کی دکان غیر قانونی ہے اور مزید یہ کہ اس کا چال چلن مشکوک ہے۔ چنانچہ وہ افسر اپنے سٹاف کے ہمراہ آیا اور سخت الفاظ میں آپ کو نوٹس دیا کہ اگلے دن بارہ بجے تک اپنا کاروبار سمیٹ کر یہ علاقہ چھوڑ دو ورنہ سخت کارروائی ہوگی۔ آپ صدر جماعت مکرم ڈاکٹر مرزا عبدالقیوم صاحب مرحوم کے کلینک میں پہنچے اور ساری روئیداد سنائی۔ مکرم ڈاکٹر صاحب سارا واقعہ سننے کے بعد کچھ دیر خاموش رہے اور پھر صرف اتنا کہا ’’خدایا اینوں تے ہٹا دے‘‘یعنی خدایا اس (افسر) کو تو ہٹا دے۔ اس کے بعد شاہ صاحب سے کہا کہ فکر مت کرو۔ کل دکان معمول کے مطابق کھولنا اور دیکھنا کہ کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ اگلے دن شاہ صاحب نے اپنی دکان حسب معمول کھولی، ملازمین کو کام شروع کرنے کی ہدایت کی اور خود اس افسر کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ وقت گزرنا شروع ہوا۔ دوپہر کے بارہ بھی بج گئے مگر افسر نے نہ آنا تھا نہ آیا۔ حتیٰ کہ شام کو دکان بند کرکے گھر چلے گئے۔ ایک طرف متعجب دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی شان پر اس کے حضور رطب اللّسان۔ کوئی ہفتہ بعد ایک دن وہی افسر اکیلا سر جھکائے چہرہ پہ شرمندگی سجائے آپ کے پاس آیا اور معافی مانگ کر کہنے لگا کہ آپ کے خلاف رپورٹ غلط کی گئی تھی۔ جس دن میں آپ کو نوٹس دے کر واپس گیا اُسی شام افسران بالا کا مجھے فون آیا کہ راتوں رات نوشہرہ چھوڑ کر ہری پور چلے جاؤ، ایک اہم معاملہ میں تمہاری ڈیوٹی وہاں لگا دی گئی ہے۔ اس پر مَیں سمجھ گیا کہ آپ ایک بزرگ اور معصوم شخص ہیں اور آپ کے خلاف ناجائز کارروائی سے اللہ نے مجھے روک دیا ہے۔ مجھے معاف کردیں۔
اسی طرح ایک بار کسی سرکاری افسر نے دشمنوں کے ایماء پر آپ کی دکان کا نلکہ بند کروا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر یہ نشان دکھایا کہ اس افسر کی ٹرانسفر کوئٹہ ہو گئی۔ وہاں سے اُس نے آپ کو پیغام بھیجا کہ آپ کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ مَیں یہاں خوش نہیں ہوں خدارا میرا تبادلہ واپس نوشہرہ کروادیں۔ آئندہ آپ کے خلاف کوئی ایسی حرکت نہ ہوگی۔
اسی طرح کے اور کئی نشانات خداتعالیٰ کی تائیدو نصرت کے آپ کے حق میں ظاہر ہوئے جن کا تذکرہ کرکے آپ کی آنکھیں آبدیدہ ہو جاتیں۔
مکرم شاہ صاحب کا ایک اور نمایاں وصف آپ کا ہر چھوٹے بڑے سے پیار محبت اور اخلاص سے ملنا اور مہمان نوازی کا اعلیٰ نمونہ دکھانا تھا۔ چنانچہ نصرت جہاں سکیم کے تحت جب مَیں افریقہ میں خدمات کی توفیق کے دوران ایک بار پاکستان آیا تو وہاں کی جماعتی ترقیات و خدمات کی تفصیل آپ نے بڑے اشتیاق سے سنی۔ مَیں نے بتایا کہ وہاں سبزیاں جو عموماً پاکستان میں عام ملتی ہیں بہت مہنگے داموں ملتی ہیں اور مٹھائی وغیرہ تو عنقا ہے۔ اور یہ کہ لیگوس (نائیجیریا ) میں ہم پھول گوبھی عید والے دن پکا کرکھاتے ہیں اور یا پھر اگر کوئی دوست شمالی علاقہ سے بطور سوغات بھجوا دیں۔ اس پر آپ نے مجھے اپنے گھر دعوت پہ بلایا اور آپ کی اہلیہ صاحبہ نے مختلف قسم کی تازہ سبزیوں کے سالن اور تازہ سلاد سے نہ صرف یہ کہ ضیافت کی بلکہ مٹھائی کا ڈبہ اور کچھ سبزیاں بطور تحفہ بھی دیں کہ اپنے قیام کے دوران سبزیوں کی جو حسرت ہے یہیں پوری کرلو!
مکرم شاہ صاحب کی وفات 2005ء میں قریباً 85 سال کی عمر میں ہوئی اور تدفین نوشہرہ میں ہی ہوئی۔ آپ کی اولاد نہ تھی، اپنے بھانجوں کو اولاد کی طرح ہی پالا اور تربیت کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں