مکرم صوبیدار خوشحال خان صاحب
محترم صوبیدار خوشحال خان صاحب کا تعلق موضع بینی ، ٹوپی صوبہ سرحد سے تھا۔ آپ نے رؤیا دیکھی کہ ایک بڑے مجمع کو ایک بہت نورانی شخصیت اردو/پنجابی میں وعظ و نصیحت فرما رہی ہے۔ تقریر ختم ہوئی تو انہوں نے مجھے آواز دی ’’خوشحال ادھر آؤ‘‘۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کسی اور کا نام خوشحال ہوگا مجھے یہ کیسے پہچانتے ہیں۔ انہوں نے پھر آواز دی اور میں نے پھر ادھر ادھر دیکھا۔ تیسری آواز پر میری طرف انگلی سے اشارہ کیا۔ میں خوشی سے پھولا نہ سمایا اور بھاگ کر گیا۔ انہوں نے مجھے بغل میں پکڑ کر فرمایا چلو رسول کریم ﷺ کے دربار میں چلیں۔ سارا مجمع بھی پیچھے پیچھے چل پڑا۔ تھوڑا چلنے کے بعد ہم ایک چمکتے ہوئے تخت تک پہنچے جس پر رسول کریم ﷺ تشریف فرما تھے اور اس سے ایسی نور کی چمکتی ہوئی شعاعیں نکل رہی تھیں کہ آنکھیں دیکھنے کی تاب نہ رکھتی تھیں۔ میرا جسم پسینہ سے تر تھا اور بدن پر لرزہ طاری تھا کہ آنکھ کُھل گئی۔…
آپ پیر کوٹھے والے حضرت سید امیر صاحب کے مریدوں میں سے تھے جن کے ذریعہ یہ خوشخبری ملی تھی کہ امام مہدی پیدا ہوگیا ہے اس کی زبان پنجابی ہے مگر ابھی اس نے دعویٰ نہیں کیا۔ آپ فوج میں تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں شرق اوسط کے محاذ پر چلے گئے اور جنگ کے خاتمہ پر عمرہ و حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ واپس آئے تو مردان میں محترم قاضی محمد یوسف صاحب سے تعارف ہوا اور دوسرے احمدیوں سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ امام مہدی آکر فوت ہوگئے اور اب اُن کے دوسرے خلیفہ کا زمانہ ہے۔ انہی دنوں آپ کا ایک بیٹا ٹانگے کے نیچے آکر شدید زخمی ہوگیا تھا جس کے بچنے کی امید بھی نہیں تھی لیکن آپ احمدیوں کے ساتھ قادیان تشریف لے گئے۔
قادیان پہنچے تو حضرت مصلح موعودؓ کو دیکھتے ہی فرمایا کہ یہی وہ بزرگ ہیں جنہوں نے مجھے رسول کریمﷺ سے ملایا تھا۔ چنانچہ اسی وقت بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔ محترم صوبیدار صاحب کا مختصر ذکر خیر آپ کے بیٹے مکرم صوبیدار عبدالغفور خان صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا مارچ 1998ء میں شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ میرے والد نے بیعت کے وقت حضرت مصلح موعودؓ کو بتایا کہ ہمارے خاندان میں آٹھ دس پشتوں سے ایسا سلسلہ چلا آ رہا ہے کہ دو بیٹے پیدا ہوتے ہیں، ایک لاولد مر جاتا ہے اور دوسرے کے پھر دو بیٹے پیدا ہوتے ہیں۔ میرا ایک بیٹا زخمی ہوکر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے دعا کریں کہ اُس کو شفا ہو اور اولاد زیادہ ہوجائے۔ حضورؓ نے دعا کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بیٹے کو صحت عطا فرمائے گا اور کثیر اولاد عطا فرمائے گا چنانچہ جب آپ واپس گاؤں آئے تو آپ کا بیٹا دن بدن تندرست ہوگیا اور اُس نے 82 سال عمر پائی اور اللہ تعالیٰ نے اُسے کثیر اولاد سے نوازا۔ باقی بچوں کی عمریں بھی 80 سال سے زیادہ ہوئیں اور سب کو اولاد عطا ہوئی۔ آپ کی شہادت کے وقت نو بیٹے اور دو بہنیں زندہ تھیں۔ دو بیٹے کرنل ہوئے اور پوتوں میں تین میجر ایک کرنل ایک بریگیڈیئر اور بہت سے دوسرے سول اور ملٹری عہدوں پر فائز ہوئے اور آج اولاد کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
محترم خوشحال خان صاحب کے خاندان کی افرادی قوّت چونکہ نہ ہونے کے برابر تھی اس لئے دوسروں نے زبردستی آپکے خاندان کی جائیداد پر قبضہ کرکے آپ کے والد کو علاقہ بدر کردیا تھا۔ قبول احمدیت کے بعد آپ نے اپنے محکمہ کے انگریز افسروں کی مدد سے مقدمہ کیا تو ساری جائیداد واپس مل گئی۔
ریٹائر ہونے کے بعد آپ اپنے گاؤں آگئے۔ نماز جمعہ کیلئے ٹوپی جایا کرتے۔ جلسہ سالانہ پر قادیان جاتے اور فوجی وردی میں حضرت مصلح موعودؓ کی حفاظتی ڈیوٹی سرانجام دیتے۔ جلسہ جوبلی کے موقع پر جب آپ نے حضورؓ سے صحت کی کمزوری کی شکایت کی تو حضورؓ کے ارشاد پر آپ کے لئے کرسی رکھ دی گئی جس پر بیٹھ کر آپ نے ڈیوٹی دی۔ 21؍مئی 1942ء کو جمعہ کی نماز سے واپسی پر راستہ میں ایک جنگل میں جو شہیدان کہلاتا ہے چند معاندینِ احمدیت نے فائرنگ کرکے شہید کردیا اور ایک خط نعش پر چھوڑ گئے کہ ہم نے قادیانی کو قتل کیا ہے ، پیچھا نہ کیا جائے اور خلاف گواہی نہ دی جائے۔
جب محترم صوبیدار صاحب کی شہادت کی اطلاع قادیان تک پہنچی تو سارے ہندوستان کی جماعتوں نے احتجاج کئے۔ انگریزوں نے جرگہ مقرر کیا جس نے خود تحقیقات کرکے بااثر قاتلوں کو سات سے چودہ سال قید اور جائیداد ضبط کرنے کی سزائیں دیں۔
مضمون نگار مزید لکھتے ہیں کہ میرے والد صاحب کی قربانی کے عوض اللہ تعالیٰ نے چند سالوں میں مجھے وائسرائے کمیشنڈ آفیسر بنادیا چنانچہ تقسیم ملک کے وقت حفاظت مرکز کے تحت خاص خدمت کی توفیق عطا ہوئی اور اس کے بعد جلسہ سالانہ اور مجلس مشاورت کے مواقع پر بھی حفاظت خاص میں ڈیوٹی دینے کی توفیق پائی اور1974ء کے بعد کچھ عرصہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے افسر حفاظت کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔