مکرم صوبیدار میجر عبدالقادر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍ستمبر 2000ء میں مکرمہ نسیم ناہید ساہی صاحبہ اپنے تایا محترم صوبیدار میجر عبدالقادر صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ آپ کو جب آپ کے والد کی وفات کے بعد گاؤں کا نمبر دار بنایا گیا تو محترم مہردین پٹواری صاحب کے ذریعہ آپ کو احمدیت سے تعارف حاصل ہوا اور سلسلہ کی بعض کتب بھی پڑھیں لیکن فوج میں ہونے کی وجہ سے آپ کو احمدیت قبول کرنے میں ہچکچاہٹ تھی تاہم آپ کی شخصیت پر احمدیت کا رنگ اس قدر نمایاں تھا کہ یہ مشہور تھا کہ آپ احمدی خیال کے افسر ہیں۔
1936ء میں جارج ششم کی کارونیشن کی تقریبات کے لئے آپ کو اپنی بٹالین کے مسلم فوجیوں کے نمائندہ کے طور پر انگلینڈ بھجوایا گیا۔ ایک احمدی محترم رسالدار نظام دین صاحب بھی (جو بعد میں کرنل کے عہدہ تک پہنچے) آپ کے ہمراہ تھے۔ جب جہاز ’’لیورپول‘‘ میں لنگرانداز ہوا تو آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ نظام دین صاحب کا استقبال کرنے کیلئے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ تشریف لائے ہوئے تھے۔ آپ کے دل و دماغ پر اس بات کا بے حد اثر ہوا کہ احمدیت میں خونی رشتہ نہ ہونے کے باوجود بے لوث پیار کا رشتہ قائم ہے۔
1939ء میں فوج سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد آپ نے باقاعدہ احمدی عقائد کا مطالعہ شروع کیا اور بالآخر 1941ء میں اپنے خاندان میں سب سے پہلے قبول احمدیت کی توفیق پانے کی سعادت حاصل کرلی۔ اس کے ساتھ ہی خاندان بھر میں آپ کے خلاف شدید ردّعمل ہوا۔ لیکن آپ نے تمام مصائب کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ کچھ ہی عرصہ میں آپ کے ایک داماد محترم لیفٹیننٹ عزیزاللہ صاحب بھی احمدی ہوگئے جو آپ کی بہن کے بیٹے تھے۔ یہ بات کسی معجزہ سے کم نہ تھی۔ اُن کے والد یعنی آپ کے بہنوئی نے اس کے بعد دشمنی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حتی کہ وفات کے وقت انہوں نے اپنے بیٹے کو عاق کرنا چاہا لیکن زبان گنگ ہوجانے کی وجہ سے پنسل کاغذ منگوایا۔ بعد میں اُن کی لکھی ہوئی تحریر کسی سے پڑھی نہیں گئی۔ اس واقعہ سے اُن کے بیٹے کا احمدیت پر ایمان اَور بھی پُختہ ہوگیا۔ وہ آخر دم تک عارف والہ کے صدر جماعت اور نائب امیر ضلع ساہیوال رہے۔
محترم عبدالقادر صاحب میرے تایا تھے۔ جب قیام پاکستان کے بعد ہمارا گھرانہ ہجرت کرکے آیا تو آپ نے ہی ہمیں پناہ دی اور بہت محبت کا سلوک کیا۔ پھر آہستہ آہستہ احمدیت کے بارہ میں لٹریچر میرے والدین کو پڑھنے کے لئے دیا۔ میری والدہ نے پوری تحقیق کے بعد احمدیت قبول کرلی۔ میرے والد کو غیروں نے بہت بھڑکایا لیکن انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہر ایک نے اپنے اپنے اعمال کا جوابدہ ہونا ہے۔ والد اگرچہ احمدی نہیں ہوئے لیکن اُن کے اس جواب نے ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہ بننے دیا۔ ہم نو بہن بھائی ہیں جن میں سے سات خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت سے وابستہ ہیں۔
ہمارے تایا جان نے اپنے گاؤں میں احمدیت کے لئے بہت کوشش کی۔ آپ ایک پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ آپ نے کئی احمدی مہاجرین کو اپنے گاؤں میں آباد کروایا۔ اپنی زمین میں سے ایک حصہ پر مسجد فضل تعمیر کروائی اور اُس قطعہ زمین کو صدر انجمن احمدیہ کے نام منتقل کردیا۔ جو مربیان گاؤں میں آتے ، وہ آپ کے ہی مہمان بنتے اور آپ خود اُن کی خدمت کرکے خوش ہوتے۔ آپ نے قبول احمدیت کے بعد قادیان میں بھی ایک مکان بنایا تھا اور کچھ زمین بھی تھی۔ بعد میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر آپ نے کوئی کلیم (Claim) داخل نہیں کیا۔ آپ موصی بھی تھے۔ بعض وجوہات کی بناء پر اپنے آبائی قبرستان میں ہی دفن ہوئے لیکن وصیت کی رقم مکمل ادا کردی۔ تحریک جدید کے دفتر اوّل کے مجاہد بھی تھے اور اب بھی آپ کا چندہ قائم ہے۔ اپنی وفات سے چند سال قبل تک جماعت احمدیہ قادر آباد کے صدر رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں