مکرم عبدالکریم صاحب اور مکرمہ محمدبی بی صاحبہ
مجلس انصاراللہ برطانیہ کے دو ماہی رسالہ ’’انصارالدین‘‘ ستمبر،اکتوبر 2007ء میں ایک مضمون مکرم بشیر احمد قمرصاحب (ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن و وقف عارضی ربوہ) کے قلم سے شامل اشاعت ہے جس میں انہوں نے اپنی زندگی میں قدم قدم پر نازل ہونے والے بے شمار افضال الٰہی میں سے چند ایک کا خصوصیت سے اپنے والدین کے حوالہ سے ذکر کیا ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ خاکسار پر اللہ تعالیٰ کے اَن گنت ا حسانات میں سب سے بڑا یہ ہے کہ میں ایک ایسے خاندا ن میں پیدا ہوا جس کو حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کرنے کی سعادت مل چکی تھی۔ میرے دادا جان، مکر م عطا محمد صا حب موضع چارکوٹ تحصیل و ضلع راجوری، ریاست جمو ں کے ان ابتدائی ا حمدیوں میں سے ہیں جن کو حضرت مسیحِ موعودؑ کے زما نۂ حیات میں قبولِ احمدیت کا شرف حا صل ہوا ۔ ان ا حمدیوں کو بڑے ابتلاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ساتھ ہی کئی نشانات ان کی تقویت ایما ن کا موجب بھی ہوتے رہے۔
میرے والدین پیدا ئشی احمدی ہیں۔ والد صاحب کا نام عبدالکریم تھا۔ آپ عالمِ جوانی میں وفات پاگئے۔ آ پ کسی سکو ل میں نہ پڑھے تھے لیکن اپنی محنت سے اردو پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ مطا لعہ کا بہت شوق تھا۔ قادیان اکثر جلسہ سالانہ پر جاتے اور سلسلہ کی کوئی نہ کوئی کتا ب خرید لاتے۔ ساری کتب ایک الماری میں حفاظت سے رکھتے۔ رات کو دیر تک مطا لعہ کرتے اور صبح کے وقت تلاوتِ قرآنِ کریم باقاعدہ فرماتے۔ ایک دفعہ مجھ سے قرآنِ کریم سننا شروع کیا۔ میری غلطیوں پر سخت سست کہا اور سزا بھی دی۔ میرے لئے یہ آپ کی پہلی اور آ خری سزا تھی۔
یومِ تبلیغ کے موقع پر مجھے ’’تبلیغِ ہدایت‘‘ کے بعض حصے پڑھا کر ساتھ لے جاتے اور مجلس میں وہ حصے پڑھواتے۔ اگر چہ وہ دلائل مجھے سمجھ میں نہ آتے تھے مگر چونکہ آ پ مجھے وقف کرنا چاہتے تھے اس لئے اسی طرز پر میری تربیت کی کوشش کی۔ نماز پنجگانہ کی ادائیگی کے ساتھ تہجد بھی ادا کرتے۔ قرآنی دعائیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے دعا ئیہ اشعار اکثر ترنم سے پڑھا کرتے۔ میرے وقف اور تربیت میں اُن کی نیک خواہش اور دعاؤں کا بہت بڑا دخل ہے۔
1946ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لئے مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ گجرات تک پیدل سفر تھا۔ قادیان میں رات کے وقت ہم داخل ہوئے۔ بالکل خاموشی تھی۔ایک سائیکل سوار نے جو اونچی آواز میں درودشریف پڑھ رہے تھے، لنگرخانہ کی طرف ہماری راہنمائی کی۔ میرے اندر وقف کی روح پیدا کرنے کے لئے ایک دن والد صاحب مجھے مسجد اقصیٰ لے گئے جہاں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ سے ملاقات کرنے کے لئے اطفال جمع تھے۔ حضرت مولانا صاحبؓ لندن سے کئی سال بعد واپس آئے تھے۔ بعد میں ایسا اتفاق ہوا کہ آپؓ کی حقیقی بھانجی سے میری شادی ہوئی اور آپؓ نے ہی نکاح پڑھایا۔
قادیان سے واپسی براستہ سیالکوٹ اور جموں ہوئی۔ دوران سفر جہاں بھی رات کو ٹھہرتے تھے وہاں باجماعت نماز پڑھتے اور جو غیراحمدی اجنبی ہمارے مہمان نواز ہوتے ان کو بھی تبلیغ کرتے۔ جس دن گھر پہنچے تو عصر کے بعد کا وقت تھا۔ آپ نے مجھے باہر ٹھہرنے کو کہا اور فرمایا کہ دیکھتے ہیں تیری ماں کیا کہتی ہے۔ پھر خود اکیلے گھر چلے گئے۔ والد صاحب کو اکیلا دیکھ کر والدہ نے میرے متعلق پوچھا۔ اِنہوں نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔ وہ سمجھیں کہ قادیان چھوڑ آئے ہیں۔ پریشان ہوگئی ں۔ان کو مغموم دیکھ کر مجھے آواز دی۔ میں جب اندر آیا تو وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوگئیں اور ایسے موقع پر جو جذبات ماؤں کے ہوتے ہیں اس کا اظہار ہوا۔ آخر والد صاحب کی خواہش کو میری والدہ نے اُن کی وفات کے بعد نہایت کٹھن حالات میں پورا کیا ۔
1947ء میں والد صا حب عالم جوا نی میں فوت ہوگئے۔ کئی دن غشی طاری رہی لیکن وفا ت سے چند گھنٹے پہلے پوری طرح ہوش میں آگئے اور اس دوران میری والدہ صاحبہ کو بلاکر وصیت کی کہ بشیر کو پڑھانا ہے خواہ گائے بھینس اور گھر کی چیزیں فروخت کرنا پڑیں۔ وا لدہ صاحبہ نے کہا کہ اب آ پ ٹھیک ہورہے ہیں، انشاء اللہ ضرور ایسا کریں گے۔ آپ نے پھر کہا کہ یہ میری وصیت ہے۔ اور تھو ڑی دیر بعد آپ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے ۔
میری والدہ محمد بی بی صاحبہ والد صا حب کی وفات کے پا نچ سال بعد 1952ء میں مہاجر کیمپ چک جما ل ضلع جہلم میں فو ت ہوئیں اور وہیں دفن ہوئیں۔ آپ کے پانچ چھ بچے فوت ہوئے کچھ والد صاحب کی زندگی میں اور کچھ آپ کی وفات کے بعد۔ والد صا حب کی وفات کے بعد چھ ماہ کے اندر میرا چھوٹا بھائی خلیل احمد فوت ہو گیا جوبہت خوبصورت اور صحتمند تھا۔ اور پھر کشمیر میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے تو گھربار چھوڑنا پڑا۔ایک دن کے سفر کے بعد مَیں سخت بیمار ہوگیا۔ خونی پیچش اور بے ہوشی کا شکار رہا، بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے لمبی بیماری کے بعد شفادی۔ یہ بیماری اور پردیس کی بے سروسامانی میری والدہ کے لئے بہت بڑا ابتلا تھا۔ جس دن میں ہسپتا ل سے فار غ ہوکر مانسر (مہاجر کیمپ ضلع کیمبل پور) میں اپنی رہائشگاہ پر کسی کے ساتھ آرہا تھا، راستہ میں دو چارپائیاں اٹھائے جماعت کے دوست ملے اور بتا یا گیا کہ میر ی والدہ اور چھوٹا بھائی شدید بیمار ہیں۔ اسی را ت ہسپتال میں میرا پیارا بھائی مشتاق احمد فوت ہو گیا۔ صبح والدہ بیماری کی حالت میں اس کا جنازہ لے کر بیرک میں آگئیں۔ بے انتہا غم۔ مجھے تو تسلّی دیتیں لیکن خود علیحدگی اور راتوں کی تاریکی میں مَیں اُن کو روتے سنتا۔ چند دن بعد میری ایک شادی شدہ بہن نذیر بیگم گوجرانوالہ رفیوجی کیمپ میں جوانی کے عالم میں فوت ہو گئی۔ میری وا لدہ نے یہ سب صدمات بڑے صبر سے برداشت کئے۔ اتنے سارے صدمات کے باوجود مجھے فرمانے لگیں کہ تمہارے والد صاحب کی آخری وصیت تمہاری پڑھائی کے متعلق ہے اس لئے تم حضور کو خط لکھو۔ اگر وہ تمہیں قبول کریں تو تم جاؤ اور مبلغ بن کر اپنے والد صا حب کی آخری خواہش اور وصیت پوری کرو۔ یہ ایک عورت ذات اور ماں کی بڑی جرأت تھی کہ دو تین بچے تھوڑے ہی عرصہ میں فوت ہوگئے ۔ بیوگی کی حا لت ہے۔ اب ایک ہی بیٹا اور چھوٹی سی چند سال کی بچی ہے۔ وطن سے بے وطن ہے۔ اور اب اس بیٹے کو اپنی مرضی سے اپنے خاوند کی وصیت پوری کرتے ہوئے جُدا کرنے کو تیار ہوگئیں۔ ان حالات میں بعض بزرگوں اور عزیزوں نے مشورہ دیا کہ ایسے حا لات میں مجھے ربوہ نہ بھیجا جائے ۔ شاید وہ سمجھتے تھے کہ اس کی جدائی سے اُن کی صحت پر برا اثر نہ پڑے۔ لیکن آپ نے اپنے خاوند کی آخری خواہش کو پورا کرنے کا عزم کیا ہوا تھا۔ اگرچہ میری جدائی کے خیال سے غمزدہ بھی تھیں۔ ایک دن میں نے ان کو الگ بیٹھے روتے ہوئے دیکھا۔ وجہ پوچھنے پر پہلے تو ٹالتی رہیں پھرکہنے لگیں کہ بعض رشتہ داروں نے مجھے تمہارے جامعہ میں بھیجنے پر مجھے روکا تھا۔ اور میرے اصرار پر مجھ سے ناراض ہوئے کہ ہماری بات نہیں مانتی۔ وہاں کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ دیکھیں گے کہ یہ کہاں سے مولوی فاضل بن کر آئے گا؟ یہ با ت سنا کر مجھے کہا کہ تم کو وہاں ضرور جانا ہے اور محنت سے پڑھنا ہے اور مولوی فاضل پاس کرنا ہے۔ یہ تمہارے باپ کی وصیت ہے ۔
افسوس ہے کہ میری والدہ مجھے مولوی فاضل بنا ہوا نہ دیکھ سکیں۔
مَیں پا نچ چھ سال کا تھا اور اپنی وا لدہ کے پاس بیٹھا تھا۔ میرے تایازاد بھائی گھر کے دوسرے افراد کو عشاء یا مغرب کی نما ز پڑھا رہے تھے۔ میری وا لدہ نے مجھے اس وقت آواز دے کر کہا کہ تم بھی کبھی بڑے ہوکر نماز پڑھاؤگے اور میں تجھے نماز پڑھاتے ہوئے دیکھوں گی۔ اللہ تعا لیٰ نے اُن کی اس حسین تمنا کو بھی پورا کر دیا لیکن وہ مجھے نماز پڑھاتے یا تقریر کرتے ہوئے نہ دیکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی اِس تمنّا کا اُن کو اپنی رضا کی صورت میں بدلہ دے اور درجات بلند فرمائے ۔
بہرحال میں نے والدہ کی ہدایت پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں خط لکھا اور چند دنوں بعد نظارت تعلیم کی طرف سے ایک کارڈ ملا کہ تم فلاں تاریخ کو انٹرویو اور دا خلہ کے لئے ربوہ آ جاؤ۔ رشتہ داروں نے ازراہِ ہمدردی ایک بار پھر نرمی سے بھی اور سختی سے بھی مشورہ دیا کہ مجھے نہ بھیجا جائے۔ بعض نے سخت سست بھی کہا۔ ایک دن میں نے والدہ کو تنہائی میں روتے ہو ئے دیکھا تو میرے ا صرار پر حالات بتائے اور پھر بڑی جرأت سے فر مایا کہ میں تمہیں ضرور بھیجوں گی۔ القصہ میں جامعہ احمدیہ احمدنگر میں داخل ہوگیا۔ مَیں جا معہ کے طلباء میں سب سے چھو ٹا تھا۔
تین سال بعد میری والدہ مجھے اورپانچ چھ سال کی میری چھوٹی بہن کو چھوڑ کر اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ میرے تایا جان دوست محمد تھے۔ وہ میرے والد صاحب کے اکلوتے بھا ئی تھے۔ دونوں بڑی محبت اور اتفاق سے رہتے تھے ۔ والد صاحب کی وفات کے بعد تقریباً بیس سال پدرانہ شفقت سے پیش آتے رہے اور پھر 80سا ل کی عمر میں میرابھڑکا (کشمیر) میں وفات پا ئی۔ رشتہ میں میرے ایک ماموں مو لوی بشیر احمد صاحب غا لباً 1945-46 ء میں قادیان سے مولوی فا ضل کرکے گھر گئے تو ایک دن میرے تایا جان نے میری طرف دیکھتے ہو ئے کہا کہ ’’کبھی ہمارا بھی کوئی مولوی فاضل ہوگا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی یہ خواہش قبو ل فرمائی اور آپ نے اپنے خاندان کے دو مولوی فاضل دیکھے۔ خاکسار مولوی فاضل کے امتحان میں بورڈ میں دوم تھا۔ پھر میرے بیٹے (مکرم نصیر احمد قمر صاحب مدیراعلیٰ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ لندن) نے بھی فاضل عربی کیا اور خدا کے فضل سے سرگودھا بورڈ میں اوّل پوزیشن اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔
سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ والدین کی نیک خواہشات اور دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔ یہ چند باتیں اس لئے لکھی ہیں کہ احباب میرے ان بزرگوں کی بلندی درجات کے لئے دعا کریں اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ آ خر دم تک ہمیں اپنے عہد کو نبھانے کی توفیق بخشے۔ آمین۔